رسد کے معنی
رسد کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَسَد }
تفصیلات
iفارسی زبان میں رسیدن مصدر سے مشتق ایک اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور سب سے پہلے ١٨١٠ء میں میر کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پہنچنا","آذوقہ جو لشکر یا قافلہ کے ہمراہ ہو","جنسِ غلہ","خوراک کا الاؤنس","ذخیرہ فوج وغیرہ کے لئے","زادِ راہ","سامانِ خوردو نوش","عموماً حصہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے","وہ چیز جو پہنچے یا آئے","کھانے کا سامان"]
رَسِیْدَن رَسَد
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : رَسَدیں[رَسَدیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : رَسَدوں[رَسَدوں (و مجہول)]
رسد کے معنی
"اسے خود چاول کی کاشت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ گاؤں کے دوسرے باشندوں سے اسے اپنی رسد مل جاتی ہے۔" (١٩٥٧ء، سائنس سب کے لیے، ٣٣:١)
ہے اہلِ فن کی رسد پیچ و تاب اہل حسد رہے ہمیشہ ہنر مبتلاش رنج و کمد (١٩٧٥ء، خروشِ خم، ١٧٠)
"رسد اور بیگار کے معاملے میں یہی ماتحتوں کی تملق سازیاں ان کے احساس حق پر غالب آگئی تھیں۔" (١٩٢٢ء، گوشہ عافیت، ١٠٧:١)
"رسدِ زر کی مقدار مارچ، ١٩٦٠ء میں پانچ ارب نوے کروڑ روپے تھی۔" (١٩٦٠ء، دوسرا پنج سالہ منصوبہ، ١٢٤)
"مرہٹوں نے امیرالامراء کے بھائی مظفرخان کے لشکر کی رسد بند کر دی۔" (١٩٨٢ء، تاریخ ادب اردو، ٢، ١٣٧:١)
"اس میں دو درجے تھے ایک (اے) میں قیدی کی تنخواہ دو روپے تھی اور دوسرے میں (بی) میں ایک روپیہ رسد دونوں کو ملتی تھی۔" (١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٣٦٧:٣)
"جہاں کہیں برسات کا پانی مویشیوں کے چارے کا سہارا دیکھا اتر پڑے، یہاں کی رسد ہو چکنے پہ آئی، دوسری جگہ جا ڈیرے ڈالے۔" (١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٠١:٢)
طلب زیادہ رسد کم معیشت دل میں خموشیوں کی بھی قیمت لگی فغاں کی طرح (١٩٧٣ء، لاحاصل، ١٣٤)
رسد کے مترادف
بخت, حصہ, سامان, جنس, راتب
آمدنی, اناج, بخت, بخرہ, بھاگ, بھوجن, بہرہ, جنس, حصہ, خوراک, درآمد, ذخیرہ, راتب, راشن, رسد, سامان
رسد کے جملے اور مرکبات
رسد رسانی, رسد گاہ, رسد خانہ
رسد english meaning
compliance (with wish)execution (of orders)importprovisionrationsstore of grain for any armysupplies
شاعری
- ہم سے یہ کیا ناخوش و قائم سے خوش
جو ہو میاں حصہ رسد چاہیے - چوں دال روٹی آمدہ فرمان کژدگار
گر بیشتر بہم نہ رسد کم غنیمت است - حصہ رسد کوئی ہو وہ رکھ جائے ایک تیغ
گزرے نہ ایک دم بھی کہ قضیہ ہے انفصال - موقوف اسی دن سے ہوئی تھی رسد آئی
لشکر میں ہوئی شاہ کے غلے کی گرانی - خون جگر کہاں صف مژگاں کے واسطے
افسوس ایسی فوج کو ملتی رسد نہیں - زاہد کو خانقاہ میں ملتی کہاں شراب
لیکن کچھ اہتمامِ رسد ہم نے کردیا
محاورات
- بر دوستی دوستان اعتماد نیست تابہ تملق دشمناں چہ رسد
- چو فرد ارسد کار فرداکنم
- شاگرد رفتہ رفتہ با استاد میرسد
- گر نہ ستانی بہ ستم میرسد
- گندم اگر بہم نرسد (بھس) جو غنیمت است
- مارگزیدہ از ریسماں می ترسد
- کس نمے پرسد کہ بھیا کون ہو۔ ڈھائی ہو یا تین ہو پون ہو
- ہر چہ از دوست (غیب) می رسد نیکوست
- ہر کہ دارد تانی اندر کار۔ بمرادت دل رسد ناچار
- یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن برآید