رسیدہ کے معنی
رسیدہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَسی + دَہ }
تفصیلات
iفارسی زبان میں رسیدن مصدر سے "حالیہ تمام" ہے (پہنچا ہوا)۔ اردو میں عموماً مرکبات میں لاحقہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے عمر رسیدہ۔ سب سے پہلے ١٧٨٤ء میں "سحرالبیان" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["انتہا کو پہنچا ہوا","پختگی پر پہنچا ہوا میوہ یا پھل","پکا ہوا","پہنچا ہوا","مرکبات میں بطور لاحقہ جیسے ستم رسیدہ\u2018 سن رسیدہ","مرکبات کے اخیر میں جیسے اجل رسید","کمال پر پہنچا ہوا"]
رَسِیدَن رَسِیدَہ
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع استثنائی : رَسِیدْگان[رسِید + گان]
رسیدہ کے معنی
اب کچھ مزے پہ آیا شائد وہ شوخ دیدہ آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ (١٩٧٦ء، ہجر کی رات کا سہارا، ١٦٢)
صاف و شفاف ہے دمیہ صبح ہے بہت لطف سے رسیدہ صبح (١٨١٨ء، کلیاتِ انشا، ٤٢٢)
دل میں جو ذوق عشقِ بتاں آرمیدہ ہے کیونکر نہ ہم کہیں یہ قلند رسیدہ ہے (١٩٥٠ء، کلیات حسرت موہانی، ٢٤١)
کرتا ہے کوئی نالہ گر پڑتے ہیں اشک اپنے کماتی ہیں کڑی چوٹیں دل درد رسیدہ ہے (١٩٢٦ء، فغانِ آرزو، ٢٠٢)
"رسیدہ انسانی عضویے میں اس قسم کی انعکاسی قوس دوسرے حصوں سے بہ اعتبارِ وظائف بالکل الگ تھلگ نہیں ملتی۔" (١٩٦٩ء، نفسیات کی بنیادیں، ٤٨)
"بڑے رسیدہ اور رسا اور مفتی آدمی ہیں لالہ کانجی مل صاحب کوئی ایسے ویسے آدمی تھوڑا ہی ہیں۔" (١٨٩٣ء، پی کہاں، ١٠)
رسیدہ english meaning
child likechildish
شاعری
- نگاہِ حُسن سے اب تک وفا ٹپکتی ہے
ستم رسیدہ سہی‘ پیرہن دریدہ سہی - اس اشک و آہ سے سودا بگڑ نہ جائے کہیں
یہ دل کچھ آب رسیدہ ہے کچھ جلا بھی ہے - مڑگان تر ہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں
جو کچھ کہ ہوں سوہوں غرض فتہ رسیدہ ہوں - اب تو ہم اس کی آنکھ میں ہیں خار
وجہ کیا ہے خزاں رسیدہ ہیں - کہتے ہیں سن کے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
افسانے کون سنتا ہے، حال شنیدہ کے - سرو چمیدہ ہوں نہ گل نو دمیدہ ہوں
بلبل ہوں تا بصحن چمن نا رسیدہ ہوں - حیواں کو بھی دُکھ ہوتا ہے زخموں کے تعب کا
میں درد رسیدہ ہوں مجھے درد ہے سب کا - صاف شفاف ہے دمیدہ صبح
ہے بہت لطف سے رسیدہ صبح - آنکھیں ملا کبھو تو کب تک کیا کروں میں
دُنبالہ گردی تیری اے آہوئے رسیدہ - میوہ نورس و رسیدہ بہت
گل خوش رنگ و بوئے چیدہ بہت
محاورات
- رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت