رہا کے معنی
رہا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَہا }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم |رہنا| کا ماضی |رہا| اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٨ء کو "گلزار داغ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بچا ہوا","چھوٹا ہوا","چھٹکارا پایا ہوا","خلاصی یافتہ","رہانا کا","رہنا کی","نجات پائے ہوئے","نجات یافتہ"]
رہنا رَہا
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
اقسام اسم
- جنسِ مخالف : رَہی[رَہی]
- واحد غیر ندائی : رَہے[رَہے]
- جمع : رَہے[رَہے]
رہا کے معنی
رہا اگر نہ مجھے ہوش عشق میں نہ رہا تمہارا دل ہے کہاں تم خبر نہیں رکھتے (١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٢٠٨)
"رہا عملی زندگی کا سورال، سو یہ کہنا کافی ہوگا کہ تین سال سے مجھے مزدوری کی عادت پڑ چکی ہے۔" (١٩٤٣ء، حرف آشنا، ٢٣)
رہا english meaning
aloeswoodjet black |A|smellings of ambergrissweet-smelling
شاعری
- غم رہا جب تک کہ دَم میں دَم رہا
دَم کے جانے کا نہایت غم رہا - حُسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اِک عالم رہا - دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرۂ خون تھا مژہ پر جسم رہا - جامۂ احرامِ زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا - میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدّت تک وہ کاغذ نم رہا - صبح پیری شام ہونے آئی میر
تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا - پنجۂ گل کی طرح دیوانگی میں ہاتھ کو
گر نکالا میں گریباں سے تو دہن میں رہا - شمع ساں جلتے رہے لیکن نہ توڑا یار سے
رشتہ اُلفت تمامی عُمر گردن میں رہا - ہم نہ کہتے تھے کہ مَت دَیر و حرم کی راہ
اب یہ دعویٰ ہشر تک شیخ و برہمن میں رہا - آہ کِس انداز سے گُزرا بیاباں سے کہ میر
جی ہر اک نخچیر کا اُس صَید افگن میں رہا
محاورات
- آب آب کر مر گئے سرھانے دھرا رہا پانی
- آب آب کرکے مرگئے‘ سرہانے دھرا رہا پانی
- آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور چیز۔ لاکھ طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
- آں قدح بشکست و آں ساقی نماند (وہ پیالہ ٹوٹ گیا اور وہ ساقی نہ رہا)
- اگر یہ سنگ ساتھ موجود رہا
- اکیلا سورما چنا بھاڑ (و) نہیں پھوڑ سکتا <br>(پھوڑنے سے رہا)
- ایک عمر مرتا رہا پر ٹھور کا ٹھور
- ایک فرہاد سو تیشے ایک جان سو اندیشے
- برکریماں کا رہا دشوار نیست
- برہا کی ماری