ریش کے معنی
ریش کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رِیش }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم مجرد ہے۔ اپنی اصل شکل اور مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٢٦٥ء میں بابا فرید گنج شکر کے ہاں مستعمل ملتا ہے (اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام), m["اردو میں صرف مرکبات میں استعمال ہوتا ہے جیسے دل ریش","زخم کرنے والا","مرد کے چہرے کے بال","موئے چہرہ"]
ریش رِیش
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : رِیشیں[ری + شیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : رِیشوں[ری + شوں (و مجہول)]
ریش کے معنی
آیا ہے ورنہ پھر کوئی فرمانِ قیصری کچھ اس حفیف ریش نے دھمکی ہے تم کو دی (١٩٨٤ء، قہرِ عشق (ترجمہ)، ٢١)
ریش کے مترادف
داڑھی
جراحت, جُرح, خط, داڑھی, زخم, قرحہ, گھاؤ, لحیہ, محاسن, ڈاڑھی
ریش کے جملے اور مرکبات
ریش مبارک
ریش english meaning
Beard
شاعری
- نکلیں گے کام دل کے کچھ اب اہل ریش سے
کچھ ڈھیر کرچکے ہیں یہ آگے اُکھاڑ کر - ہے لوٹنے کی جاکہ گدھے پر سوار ہو
زاہد نے عزم کعبہ بایں ریش وفش کیا - غصہ میں سب کھڑے ہوئے ہیں ریش کے جو بال
زیر وزبر ہیں صاف پئے مصحف جمال - تر آنسووں سے ہو گئی ریش خفا بدار
تسلیم کر کے قاسم گلرو ہوا سوار - کرتا تھا مہندی سے وہ عالی جناب
بالیقیں ریش مبارک کو خضاب - روشنی کی کچھ جھلک کچھ ہے سیاہی کی چمک
کھل گیا ہو جس طرح ریش مخضب کا خضاب - پانی نہیں‘ جبیں پہ جبیں رکھ کے روؤں گی
اشکوں سے خون‘ ریش خضابی کا دھوؤں گی - اے زٹلی توازیں شہر بزوی دربھاگ
ورنہ ریش تو بپکڑندو جھڑا جھٹکندے - گڑوا بنا کے ریش مخضب سے محتسب
جکاتا ہے اوس مقام میں جاوے جہاں بسنت - الایا ایہا السمفتی شدہ ریش تو جنگلہا
اکھاڑوں بال یک یک کر بناؤں خوب کملہا
محاورات
- اجلو اجلو سب بھلو اجلو بھلو نہ کیس۔ ناری نوے نہ ریپ ڈرے نہ آدر کرے نریش
- از ریشم کند دربروتم کرد
- بازی بازی باریش بابا ہم بازمی
- بال پریشان ہونا
- چشم مابسیار ازیں خواب پریشاں دید است
- دل پریشان ہونا
- دماغی پریشانی
- دوست آں باشد کہ گیر ددست دوست۔ در پریشاں حالی و درماندگی
- رگ و پے (یا ریشہ) میں سرائیت کرنا
- رگ و پے (یا ریشہ) میں سرایت کرنا