ریلا کے معنی
ریلا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رے + لا }
تفصیلات
iپراکرت زبان سے ماخوذ اسم ریل کے آخر پر |نا| علامت مصدر لگا کر |ریلنا| مصدر بنا جسکا حاصل مصدر |ریلا| ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٧١٣ء میں "دیوانِ فائز دہلوی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پانی کا چڑھاؤ","جانوروں کی قطار","جوار بھاٹا","طوفانِ آب","ہل چل"]
ریل ریلا
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : ریلے[رے + لے]
- جمع غیر ندائی : ریلوں[رے + لوں (و مجہول)]
ریلا کے معنی
"مولوی عبداللہ وکیل جیل کے اندر جانے لگے تو عوام کا ریلا اُنکے ساتھ اندر گُھس گیا۔" (١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٨٨)
"پانی کا ریلا کئی دھاروں میں تقسیم ہو جاتا۔" (١٩٨٢ء، پچھتاوے، ١٨٤)
"آریاؤں کی یورش کے بعد برصغیر پر غیر ملکی اثرات کا ایک ریلا ٣٢٧ ق م . آیا۔" (١٩٨٥ء، اردو ادب کی تحریکیں، ١٥٩)
"کسی وقتی جوش و خروش کے ریلے میں میدان میں نہیں اُترتی۔" (١٩٤٦ء، تعلیمی خطبات، ٢٢٧)
ریلا کے مترادف
بھیڑ, ڈار, دھار, دھکا, جھوکنا, مجمع, سیل
ازدحام, انبوہ, بھیڑ, بہاؤ, جمّ, دھار, دھکا, رو, رَو, سیل, سیلاب, طغیانی, غول, مجمع, ٹھیلا, ڈار, ہجوم
ریلا english meaning
A line or string of animals; a rushing streama torrenta floodgrowl
شاعری
- آج بہتے کا یار میلا ہے
خلق کا اس کنار ریلا ہے - ریلا پانی کا جب کہ آتا تھا
خوف سے جی بھی ڈوبا جاتا تھا - لگتا ہے جو صورتوں کا میلا
آتا ہے جو قامتوں کا ریلا - تماشا گاہ دنیا میں بتاؤں کیا امیدوں کی
تن تنہا تھا میں اے شاد اور ریلے پہ ریلا تھا - اپنی ذات میں راجا تھے ہم‘ اپنی ذات میں سینا تھے
طوفانوں کا ریلا تھے ہم‘ بلوانوں کی سینا تھے
محاورات
- اگلا جھولے بگلا جھولے ساون ماس کریلا پھولے
- ایک تو (کڑوا) کریلا دوسرے نیم چڑھا
- ایک تو کانی تھی دوسرے پڑگیا کنک۔ ایک تو کڑوا کریلا دوسرے نیم چڑھا
- ایک کریلا دوسرے نیم چڑھا
- چیونٹی کو موت کا ریلابہت۔ چیونٹی کو مت کی بلابس
- ساون ماس کریلا پھولا۔ نانی دیکھ نواسا بھولا
- سب کوئی بولے تو نیک لاگلا۔ کپور۔ بہو بولے تہوک بریلا
- کریلا اور نیم چڑھا ۔ کڑوا کریلا نیم چڑھا
- کڑوا کریلا نیم چڑھا