ریگ کے معنی
ریگ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ ریگ (ی مجہول) }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں اپنی اصل شکل اور معنی کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["دریا کا ریتا","ریت بالو","وہ ریت جو گردے میں پیدا ہوجاتا ہے","وہ مٹی جو تحریر کو خشک کرنے کے لئے ڈالا کرتے تھے"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
ریگ کے معنی
ہم محبت کے خرابوں کے مکیں ریگ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے (١٩٦٩ء، لا : انسان، ٤٨)
ریگ کے مترادف
بالو, چورا
بالُو, برادہ, چورا, چُون, ریت, ریتا, رینکا, سُراب, منصوف
ریگ کے جملے اور مرکبات
ریگ مال, ریگ زار, ریگ رواں, ریگ زر, ریگ شوئی, ریگ ماہی, ریگ مثانہ, ریگ نشین
ریگ english meaning
sand(lit.) sand
شاعری
- مثالِ ریگ ہوں میں ساعتوں کی مٹھّی میں
وہ جب تک آئے گا‘ سارا بِکھر چکا ہوں گا - خیال ذرہ ریگ بیاباں کوئی جات ہے
پھریں گے ترمرے تربت میں بھی مجنوں کی آنکھومیں - ریگ تفتیدہ پہ ہے غش میں علی کا دلبر
جاؤ کیا دیر ہے کاٹو شہ مظلوم کا سر - ہر چند گنہ ریگ بیاباں سے سوا ہیں
پر آپ حمایت پہ جو آجائیںتو کیا ہیں - ترے اس خاک اُڑانے کی دھمک سے اے مری وحشت
کلیجا ریگ صحرا کا بھی دس دس گز تھلکتا تھا - نہ ریگ رواں ہیں دھوپ میں ذرے نہ تابندہ
اتو سے ہے جلا بسمے کی کیا دامان ہاموں پر - گھٹتے گھٹتے ناتوانی سے وہ ہوں کاہیدہ تن
ذرہ افتادہ ریگ بیاباں ہو گیا - تا کوئی پتا بھی مری تربت کا نہ پائے
کرنا مجھے وہاں دفن جہاں ریگ رواں ہو - کیوں کر نہ خاکسار در یار ہو رہوں
حاصل صفائے تن ہے مجھ ریگ مال میں - تھا پشتہ ریگ باد یہ اک وقتِ کارواں
یہ گرد باد کوئی بیاباں نورد تھا
محاورات
- آج کریگا کل پائیگا
- آج کریگا کل پایئگا
- اپنا ماریگا تو پھر چھاؤں میں بٹھائیگا
- اتر گئی لوئی تو کیا کریگا کوئی
- اوڑھ لی لوئی تو کیا کریگا کوئی
- بیٹا چڑھ جا سولی پر خدا بھلا کریگا
- تریگا سو ڈوبیگا
- تعظیم کاریگراں معاف۔ تعظیم و تکریم معاف
- چیرا ہے جس نے وہ نیریگا
- چیں چیں کرتا پھریگا