زدہ کے معنی
زدہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ زَدَہ }
تفصیلات
iفارسی زبان میں مصدر |زدن| سے مشتق صیغۂ ماضی مطلق|زر| کے ساتھ لاحقۂ حالیہ تمام |ہ| لگنے سے |زدہ| بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٩٨١ء کو "قصہ جاجی اصفہانی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پھٹا ہوا (کپڑا)","خراب و خستہ","ساکن (حرف)","صف بند جیسے صف زدہ","ضرب رسیدہ","قطار میں کھڑا کیا ہوا","مارا ہوا","مرکبات میں جیسے آفت زدہ","مصیبت زدہ","مصیبت کا مارا ہوا"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : زَدَوں[زَدَوں (واؤ مجہول)]
زدہ کے معنی
"دوسرے لڑکوں کی زدہ حالت دیکھ کر رحم آتا ہے۔" (١٩٤٧ء، فرحت مضامین، ١٧٧:٤)
زدہ english meaning
struckstrickensmittenbeaten; affectedafflicted; oppressed; accentuateddrawn up in linearrayed; oldworn out (as clothes)abdomenbellyinside (of anything)mindwomb
شاعری
- ہے حرفِ خامہ دل زدہ حسنِ قبول کا
یعنی خیال سر میں ہے نعتِ رسول کا - ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا - ہر ذرّہ خاک تیری گلی کا ہے بے قرار
یاں کون سا ستم زدہ ماٹی میں رَل گیا - جس راہ سے وہ دل زدہ دلی سے نکلتا
ساتھ اُس کے قیامت کا سا ہنگامہ رواں تھا - افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک
ندی تھا‘ بلا تھا‘ کوئی آشوب جہاں تھا - ہم دل زدہ نہ رکھتے تھے تم سے یہ چشم داشت
کرتے ہو قہر لطف کہ جاگہ غضب ہے کیا - کب اُس کا نام لئے غش نہ آگیا مجھ کو
دلِ ستم زدہ کس وقت اُس میں جا نہ رہا - آنکھ اس کی نہیں آئینہ کے سامنے ہوتی
حیرت زدہ ہوں یار کی میں شرم و حیا کا - تلوار کے سایہ ہی میں کاٹے ہے تو اے میر
کس دل زدہ کو ہوئے ہے یہ ذوق فنا کا - احوال نامہ بر سے مرا سُن کے کہہ اُٹھا
جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجو کیا ہنوز
محاورات
- برق زدہ از آتش مے گریزد
- حیرت زدہ ہونا
- زدہ رامی تواں زد / زدن
- زدہ رانتواں زد
- لڑیں نہ بھڑیں (ترکش) زدہ (بکتر)پہنچے پھریں
- مرتے کو (مارے شامت زدہ) ماریں شاہ مدار