سرا کے معنی

سرا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ سَرا }{ سِرا }

تفصیلات

iفارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, iپراکرت زبان میں اسم |سر| کے ساتھ |ا| بطور |لاحقۂ تکبیر| لگانے سے اسم |سرا| بنا۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "پرت نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک درخت جس کی لکری کی کمانیں بنتی ہیں","بدن کی رگ یا نس","پھرنے والا","س۔ شیراون","سرائیدن سے","گانے والا","لمبا اور سیدھا بانس","لکیریں جو رگوں کی طرح ایک دوسرے کو کاٹیں","مرکبات میں جیسے نغمہ سرا","مٹی کا ڈھنکنا"]

اسم

اسم ظرف مکان ( واحد ), اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • واحد غیر ندائی : سِرے[سِرے]
  • جمع : سِرے[سِرے]
  • جمع غیر ندائی : سِروں[سِروں (و مجہول)]

سرا کے معنی

١ - مسافروں کے ٹھہرنے کا مکان (جس کی جگہ اب عموماً ہوٹل ہوتے ہیں)، مسافر خانہ، دھرم شالہ۔

 کسی کی یاد اس طرح سے آئی ہے آج میرے دل میں کہ جیسے اجڑی سرا میں آکر دیا مسافر جلا رہا ہو (١٩٥٨ء، فکر جمیل، ١٧٧)

٢ - [ مجازا ] دنیا، جہاں۔

 الٰہی ہووے جہاں میں ظہور اب اس کا کہ ہے وہ شافع محشر امام ہر دوسرا (١٨١٢ء، گل مغفرت، ٣)

١ - کسی چیز کے شروع یا آخر کا کنارہ۔

"یہ تو وہ بھول بھلیاں ہیں جہاں ڈوری کا سرا لے کر چلو تو جبھی بھٹکنے سے بچ سکتے ہو۔" (١٩٨٣ء، تخلیق اور لاشعوری محرکات، ١٠٨)

٢ - آغاز، ابتدا۔

"اردو تنقید میں اس قسم کی بحثیں "تاریک گلی" بن کر رہ گئی ہیں جس کا روشنی کی طرف سرا مضمون کے اختتام پر بھی نہیں نکلتا۔" (١٩٧٥ء، توازن، ٢٢٤)

٣ - قربت، نزدیکی، آمد۔

"عید کا جو سرا ہے تو کوئی درزی بھی ہاتھ نہیں دھرتا" (١٨٧٥ء، انشائے ہادی انسا، ١١٢)

٤ - اوپر کا حصہ، چھت۔

"ہوا نے سرا اس مکان کا اٹھا کے دریا میں ڈال دیا" (١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ٢٠٩:١)

٥ - حصہ، جگہ۔

"اس کا خیال رکھنا بھی مناسب ہو گا کہ اس سرے کا گوبر دھو دیا جائے" (١٩٤٧ء، انگور، ٧٣)

٦ - درجہ، طبقۂ انتہا۔

"پرلے سرے کی بے وقوفی ہے اولاد کو اپنے کردار ناسزا کی بری مثالیں دکھانا اور ان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ لوگ بڑے ہو کر زبانی پند یا کتابی نصیحت پر کار بند ہو کر صالح اور نیک وضع ہو گے۔" (١٨٧٧ء، توبۃ النصوح، ٣)

سرا کے مترادف

آخر, نوک, کنارہ

آبشار, آغاز, ابتدا, اخیر, انتہا, اول, بالٹی, پانی, پیالہ, سانپ, شر, شراب, گلاس, ناگ, نالہ, ندی, ڈنڈا, ڈول, کراں, کنارہ

سرا english meaning

headtoppointend; extremitytip; beginning; head piece or foot-piece (of a bed)(Met.) the world(of) quiescenta housea temporary home for travelleran innaplogizing [A doublet of عذر]apologydisability [A~ عذر]excusestomachstomachic [A]to dispense withto excuseto exempt fromushervery humblewritten but not pronounced [A~ عدل]

شاعری

  • کب تھا یہ شورِ نوحہ ترا عشق جب نہ تھا
    دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی
  • اک ریت کا دریا سا ادھر بھی ہے اُدھر بھی
    صحرائے محبّت کا سرا ہے کہ نہیں ہے!
  • سرا پردہ چرخ ابر بہار
    یہ جھالر ہے مقیش کی آبدار
  • انساںکبھی نہ آپ سے باہر نکل چلے
    دنیا تو اک سرا ہے کہ آج آئے کل چلے
  • انشا مرے آغاکی سلامی کو جھکے ہے
    سکان سرا پردہ تقدیس کی ٹوپی
  • طلوع روز دہم جبکہ آفتاب ہوا
    حرم سرا سے برآمد یہ ماہتاب ہوا
  • عالم اسباب ہے یا آہنی کڑیوں کا ڈھیر
    ڈھونڈیے لیکن سرا ملتا نہیں زنجیر کا
  • بہن پہ عترت خیرالوریٰ کا رکھ کربار
    حرم سرا سے چلے رن کو سید ابرار
  • اس کارواں سرا میں کیا میر بار کھولیں
    یاں کوچ لگ رہا ہےشام و سحر ہمارا
  • خامہ میرا کہ وہ ہے بارید بزم سخن
    شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے

محاورات

  • آج مرے (موئے) کل دوسرا دن
  • آج مرے (یا موے) کل دوسرا دن
  • آج مرے کل دوسرا دن
  • آدمی کیا ہے سرائچے کا بانس ہے
  • آسرا تاکنا
  • آسرا تکنا (یا ڈھونڈنا یا لگانا)
  • آسرا لگا ہونا
  • آسرا ٹوٹ جانا
  • آسرا ٹوٹنا (یا ٹوٹ جانا)
  • آسرا کرنا

Related Words of "سرا":