سفال کے معنی
سفال کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سِفال }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں اپنے اصل معنی اور حالت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٠٠ء سے "من لگن" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اخروٹ وغیرہ کا چھلکا","اردو میں بالکسر مستعمل ہے","بادام پستہ وغیرہ کا خول","مٹی کا برتن","نیچا پن"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
سفال کے معنی
"یہ کہنے کے لائق بنے ہیں، سفال آفریدی ایاغ آفریدم فطرت کا ایک حصہ تھے۔" (١٩٨٥ء، نقد حرف، ١٠٢)
"چھت . سنگ مرمر کی شفاف تختیوں سے بنائی گئی تھی اور اس کے اوپر چاندی اور سونے کے سفال تھے۔"١٩١٢ء، خیالات عزیز (دیانرائن)، ٢٧
ہوا ہے بس کہ طراوت سوں یہ مکان سرسبز ہر اک سفال پہ دستا ہے رنگ ریحانی (١٧٠٧ء، ولی، کلیات، ٣١٩)
جلوۂ رخ اس پہ تیرا ہو نہ گر پر تو فگن اک سفال راہ سے ہو جائے بدتر آفتاب (١٨٩٧ء، خانۂ خمار، میکش، ٣٥)
سفال کے جملے اور مرکبات
سفا پوشی, سفال پوش, سفا گردانی
سفال english meaning
adulterationbeat severelydeceitimpurityin sinceritythrash
شاعری
- سفال و خزف کے ہیں انبار گریاں
جواہر کے ٹکڑے بھی ان میں ہیں پنہاں - اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے