سمن کے معنی
سمن کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَمَن }{ سَم + مَن }چنبیلی
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, ١ - (قانون) عدالت میں حاضر ہونے کا تحریری حکم، پروانۂ طلبی، اطلاع نامہ۔, m["آنا، بھیجنا، جاری کرنا یا ہونا، جانا، چلا جانا، دینا، کرنا، لینا، ہونا کے ساتھ مستعمل","اصل سَمَنز ( کا مخفف)","ایک ہندو سادھو تھا جس کے مقولے مشہور ہیں","بھینٹ کے لئے جانور کو مارنا","حکم حاضری","حکمنامہ جس کے ذریعے لوگوں کو عدالت میں بلایا جاتا ہے","سرد مہری","سفید چنبیلی","سہ برگر","سہ برگہ"],
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد ), اسم نکرہ, اسم
اقسام اسم
- لڑکی
سمن کے معنی
شبو، شاخ، شجر، سمن مہندی ہاتھ اور پھول لگن (١٩٨١ء، ملامتوں کے درمیان، ٨٥)
سمن کے جملے اور مرکبات
سمن اندام
سمن english meaning
Jasmine; lily of the valleya justice|s courtarbitarationcorpulence [A]court of a sub-judgedecisionequityevicthouseholdjudgmentjusticemake oneself scarcepay out of one|s pocketroam about all oversearch every nook and corner of the houseverdictvirtuous housewifeSaman
شاعری
- کوگل ولالہ کہاں سنبل سمن ہم نسترن
خاک سے یکساں ہوئے ہیں ہائے کیا کیا آشنا - ہم جلوہ البر سمن فام
جاں سوز نجوم آب اندام - شکر ایزد کہ ازیں باد خزاں رختہ لیاقت
بوستان سمن و سرود گل و شمشاد است - کہا ہم نے اے سمن بر، پری چہرہ مہر پیکر
جو چلی ہو یوں جھمک کر کہو عزم ہے کدھر کا - طناز سر بلند فلک سیر خوش سیر
چالاک برق تاز سمن برخجستہ فر - مس زبیدہ سے کہا میں نے سنیما ہال میں
اے سمن اندام‘ گا رخ مہ جبیں‘ خورشید رو - تو وہ بہار باغ حسن جس پر کرے نثار جاں
لالہ رخی سہی قدی گلبدنی سمن بری - مج من بہور ہو لوبھیا تج مک کے یا سمن سوں
تو اب بدر ہوا سب گلزار ہور چمن سوں - محل میں جب کہ آیا وہ سمن رو
کیا دلہن کا اپنی کرم پہلو - نالہ بھرا جو یاد میں میں نے شمیم یار کے
نبضیں گلوں کی چُھٹ گئیں بوئے سمن نے غش کیا
محاورات
- بھرے سمندر پیاسے
- بھرے سمندر گھونگا ہاتھ
- تن ملا تو کیا ہؤا من کی بجھی نہ پیاس جیسے سیپ سمندر میں کرے تراس تراس
- خرچ سے سمندر خالی ہوجاتا ہے
- دروازے پر آئی برات سمندھن کو لگی ہگاس
- سات سمندر پار
- سمن ایسی پریت کر جیسے شکر گھی۔ جات بھات پوچھے ناہیں جس سے مل جائے جی
- سمن ایسی پریت کر جیسے کرے کپاس۔ جیتے تو حرمت رکھے اور موے چلے گی ساتھ
- سمن ایسی پریت کرجوں ہندو کی جوئے۔ جیتے جی تو سنگ رہے مرے پہ ستی ہوئے
- سمن دھاگا پریم کا جن توڑو چٹکائے۔ توڑے پر جو جوڑ ہو بیچ گانٹھ پڑجائے