شکیب کے معنی
شکیب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شِکیب (ی مجہول) }بردباری
تفصیلات
iفارسی سے اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اُردو میں عموماً صبر و شکیب کی ترکیب سے استعمال ہوتا ہے"],
اسم
اسم مجرد ( مذکر - واحد ), اسم
اقسام اسم
- لڑکا
شکیب کے معنی
آج تک دیتے رہے دل کو فریب اب نہیں ممکن ذرا تابِ شکیبب (١٩٧٨ء، ابنِ انشا، دلِ وحشی، ٤٠)
شکیب کے مترادف
قانع, قناعت, صبر
؛بر, آرام, برداشت, بردباری, بُردباری, تحمل, ستتوکھ, سنتوکھ, سنٹوکھ, سہار, صبر, صبوری, قناعت
شکیب کے جملے اور مرکبات
شکیب آموز, شکیب بر
شکیب english meaning
Patiencelong-sufferingShakeeb
شاعری
- دلِ مضطرب سے گزر گئے‘ شب وصل اپنی ہی فکر میں
نہ دماغ تھا نہ فراغ تھا‘ نہ شکیب تھا نہ قرار تھا - شکیب میر جو کرتا تو وقر رہ جاتا
اُدھر کو جاکے عبث یہ حبیب خوار ہوا - مسافرانِ رہ عشق ہیں شکیب سے چپ
وگرنہ حال ہمارا تو اضطراری ہے - شکیب و تحمل خودی پر غروری
یہ کب ہووے عاشق سے کار پری رخ - ہم نے بھی تو جی کو خاک کر کے
دامان شکیب چاک کر کے - کیوں تو نے ڈورے ڈال کے پھیلایا دام عشق
پابند غم کیا مجھے غارت گر شکیب - ظفر وہ ناز و نگاہ ہے بلا لٹیری فوج
شکیب و صبر کی دل میں نہ کیونکر لوٹ پڑے - بہر سطر میں لفظ زیبا فریب
بہر لفظ معنی شکیبا شکیب - بیتابی و شکیب و سفر حاصلِ کلام
اس دل مریضِ غم کو نہ کوئ دوالگی - یار کو بتلا چکی جب یہ فریب
ٹال کے دس پانچ دن وہ نا شکیب