صدی کے معنی
صدی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ صَدی }
تفصیلات
iفارسی سے اردو میں دخیل صفت عددی |صد| کے ساتھ |ی| بطور لاحقہ نسبت ملنے سے |صدی| بنا۔ اردو میں بطور اسم نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["سو سال","صد سالہ عرصہ"]
صد صَدی
اسم
صفت عددی, اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- ["جمع : صَدْیاں[صَد + یاں]","جمع غیر ندائی : صَدْیوں[صَد + یوں (و مجہول)]"]
صدی کے معنی
["\"منصب داروں کا سلسلہ تفصیل سے چلتا تھا صدی وغیرہ وغیرہ۔\" (١٨٨٣ء، دربارِ اکبری، ٧٠)","\"جو باقی رہا اس پر فی صدی ڈھائی روپے کے حساب سے . خزانہ شاہی میں داخل کر دیا۔\" (١٩٠٦ء، مرات احمدی، ١٥٧)"]
["\"سولہویں صدی کے آغاز سے اٹھارویں صدی کے وسط تک سیاسی اقتدار ان کے ہاتھ رہا۔\" (١٩٨٧ء، غالب فکر و فن، ٢١)"]
صدی کے مترادف
قرن
سینچری, سینکڑہ, سیکڑا, قرن
صدی english meaning
(see under صدر adj & n.m)be tempted (to)have a temptation
شاعری
- اس صدی میں تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی نمود
ہنسنے والے تیرا پتھر کا کلیجہ ہوگا - ادب کر اس خراباتی کا جس کو جوش کہتے ہیں
کہ یہ اپنی صدی کا حافظ و خیام ہے ساقی - آنے والا کل
نصف صدی ہونے کو آئی
میرا گھر اور میری بستی
ظُلم کی اندھی آگ میں جل جل راکھ میں ڈھلتے جاتے ہیں
میرے لوگ اور میرے بچّے
خوابوں اور سرابوں کے اِک جال میں اُلجھے
کٹتے‘ مرتے‘ جاتے ہیں
چاروں جانب ایک لہُو کی دَلدل ہے
گلی گلی تعزیر کے پہرے‘ کوچہ کوچہ مقتل ہے
اور یہ دُنیا…!
عالمگیر اُخوّت کی تقدیس کی پہرے دار یہ دنیا
ہم کو جلتے‘ کٹتے‘ مرتے‘
دیکھتی ہے اور چُپ رہتی ہے
زور آور کے ظلم کا سایا پَل پَل لمبا ہوتا ہے
وادی کی ہر شام کا چہرہ خُون میں لتھڑا ہوتا ہے
لیکن یہ جو خونِ شہیداں کی شمعیں ہیں
جب تک ان کی لَویں سلامت!
جب تک اِن کی آگ فروزاں!
درد کی آخری حد پہ بھی یہ دل کو سہارا ہوتا ہے
ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے! - اکیسیوں صدی کے لیے ایک نظم
سَمے کے رستے میں بیٹھنے سے
تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
جن کی لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہے!
ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید
پران کا مطلب بتانے والا کوئی نہیں ہے!
وہ سارے رسّے روایتوں کے کہ جن کی گرہیں کَسی ہوئی ہیں
ہمارے ہاتھوں سے اور پاؤں سے لے کے خوابوں کی گردنوں تک!
ہماری رُوحوں میں کُھبتے جاتے ہیں
اور ہم کو بچانے والا‘ چھڑانے والا کوئی نہیں ہےِ
زباں پہ زنجیر سی پڑی ہے
دلوں میں پھندے ہیں
اور آنکھوں میں شامِ زنداں کی بے کَسی ہے
چراغ سارے بجھے پڑے ہیں جلانے والا کوئی نہیں ہے!
مرے عزیزو‘ مجھے یہ غم ہے
جو ہوچکا ہے بہت ہی کم ہے
سَمے کے رَستے میں بیٹھے رہنے کے دن بھی اَب ختم ہورہے ہیں
بچے کھُچے یہ جو بال و پَر ہیں
جو راکھ داں میں سُلگنے والے یہ کچھ شرر ہیں
ہمارے بچّوں کے سر چھپانے کو جو یہ گھر ہیں
اب ان کی باری بھی آرہی ہے
وہ ایک مہلت جو آخری تھی
وہ جارہی ہے…
تو اس سے پہلے زمین کھائے
ہمارے جسموں کو اور خوابوں کو
اور چہروں پہ اپنے دامن کی اوٹ کردے
یہ سرد مٹی جو بُھربُھری ہے
ہماری آنکھوں کےزرد حلقے لہُو سے بھردے!
مرے عزیزو چلو کہ آنکھوں کو مَل کے دیکھیں
کہاں سے سُورج نکل رہے ہیں!
سمے کے رستے پہ چل کے دیکھیں - ذی حکم خزانہ اشرفی سے
صد برگ کا اسم پان صدی ہے - برکت ہے اسی کی اس صدی میں حضرت
بیٹھے ہوئے کررہے ہیں چاچھا جاجھا - نوا کے سیس لگا رکھ سدا تو ہرکےدوار
کہ دور بارہ صدی کا ہے سخت ناہنجار
محاورات
- انتقال تصدیق کرنا
- تصدیق کرنا
- تیرھویں صدی میں شرح کی باتیں کوئی نہیں مانتا
- چار بند کی فصدیں لینا
- دلی تیرہ صدی برباد ہوتی ہے