قلزم کے معنی
قلزم کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ قُل + زُم }
تفصیلات
iعربی زبان سے مشتق اسم جامد ہے۔ عربی سے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["کوئی چیز نگل لینا","(بحیرہ) عرب اور افریقہ کے درمیان ایک سمندر","ایک شہر کا نام جو مصر اور عرب کے درمیان سمندر کے کنارے پر بسا ہوا ہے","ایک فارسی لغت","بحرِ عیق","بحرِ فشّار","بحیرۂ احمر","وہ سمندر جو عرب اور مصر یعنی افریقہ کے مابین واقع ہے","کوہ سینا کے قریب ایک قصبہ"]
اسم
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : قُلْزُموں[قُل + زُموں (و مجہول)]
قلزم کے معنی
قلزم زیست میں ایسے بھی بھنور آتے ہیں سینکڑوں ڈوبے ہوئے لوگ ابھر آتے ہیں (١٩٨٦ء، غبار ماہ، ١٨٠)
قلزم کے مترادف
ساگر, سمندر
ساگر, سمندر, قَلزَمَ, یَم
قلزم کے جملے اور مرکبات
قلزم زخار
قلزم english meaning
clysmaa town in Egypt near Mount Sinai(fig.) seaclysma ( name of an Egyptian city)clysma (name of an Egyptian city) (fig.) sealeft handleft wing (of army)the red sea or arabian gulf
شاعری
- غم آغوش بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو
چراغ روشن اپنا قلزم صر صر کا مرجاں ہے - قلزم عشق کا اولٹا ہے طریق
یاں جو ڈوبے سو ترے بیٹھے ہیں - ہر قطرہ مرے دیدہ سوزاں کا شرر ہے
پیدا ہے اسی قلزم تہ دار سے آتش - کہاں رام راجا کہاں شہ حسین
کہاں بحر قلزم کہاں قلتین - لطمے کھاتا ہوں خوشی سے قلزم آفاق میں
خوان نعمت مجھ کو گردہ بن گیا گرداب کا - قلزم عشق میں تنکے کا سہارا بھی نہ ڈھونڈھ
آسرا وہ نہیں لیتے جو خدا رکھتے ہیں