قم کے معنی

قم کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ قُم }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاث مجرد کے باب سے مشتق صیغہ امر ہے اردو میں اصلی معنی میں داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٣٩ء میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اٹھنا","اٹھ بیٹھ","اٹھ کھڑا ہو","جی اٹھ"]

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

قم کے معنی

١ - اٹھ کھڑا ہو، اٹھ بیٹھ، جی اٹھ، کلمہ قم باذن اللہ کا پہلا لفظ (حضرت عیسٰی علیہ السلام مردے کو زندہ کرتے وقت یہ کلمہ کہا کرتے تھے یعنی اللہ کے حکم سے کھڑا ہو جا)۔

 جس نے ضربوں سے کار مسیحا لیا قم کہا اور دنیا کو زندہ کیا (١٩٧٧ء، سرکشیدہ، ٩٨)

٢ - [ قالین بانی ] چھوٹے اور کھڑے روئیں کا قالین چونکہ اس قالین میں رواں موٹی اون کا ڈالا جاتا ہے اور چھوٹا بھی رکھا جاتا ہے اس لیے وہ کھڑا رہتا ہے۔

قم کے جملے اور مرکبات

قم عیسی

شاعری

  • گھبرا کے چونک اٹھیں ابھی خفتگان گور
    آجائے تیرے لب پہ اگر لفظ قم کبھی

محاورات

  • اس کی دوا لقمان کے پاس بھی نہیں
  • بازو ٹوٹے باز کو باز ہی لقمہ دے
  • بلقماں حکمت آموزی چہ حاجت
  • بڑا بول نہ بولئے بڑا لقمہ نہ کھائیے
  • بے ہاتھ پاؤں ہلائے لقمہ منہ میں نہیں جاتا
  • پہلے ہی گسے (لقمے) میں بال آیا
  • حاضر کو لقمہ غائب کو تکبیر
  • حکمت بلقمان آموختن
  • دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ
  • رحمٰن جوڑے پلی پلی۔ شیطان (لقمان) لنڈھائے کپا

Related Words of "قم":