قیدی کے معنی
قیدی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ قَے (ی لین) + دی }
تفصیلات
iعربی زبان سے ماخوذ اسم |قید| کے ساتھ |ی| بطور لاحقہ نسبت ملانے سے |قیدی| بنا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٦٩ء میں قلمی نسخہ "آخرگشت" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["پابندِ سلاسل","پابہ زنجیر","پکڑا ہوا","زیرِ حراست","سزا یافتہ","وہ شخص جسے قید کی سزا ہوئی ہو"]
قَید قَیدی
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : قَیدِیوں[قَے (ی لین) + دِیوں (و مجہول)]
قیدی کے معنی
گھر والوں تک بات نہ پہنچی میری اس بپتا کی ورنہ یہ قیدی قید میں اپنے اتنی بیاکل ہوتی (١٩٧٨ء، ابن انشا، دل وحشی، ١٨٨)
"بدر کے قیدی جب گرفتار ہو کر آئے اور آپۖ نے ان کے متعلق صحابہ سے مشورہ طلب کیا اور مختلف صاحبوں نے مختلف رائیں پیش کیں۔"١٩٢٣ء، سیرۃ النبی، ٢٨٣:٣
ہو کشتگاں پر جو ہو کر گزار قیامت ہوئی قیدیوں پر دو چار (١٨١٠ء، کلیات میر، ١٢٨)
قیدی کے مترادف
پابگل, زیر حراست, زندانی
اسیر, بندی, پابجولاں, پابند, گرفتار, مجرم, محبوس, مقید
قیدی english meaning
(fig.) one very close (to)a captivea prisonercaptiveconvict [A]outspoken personprisoner
شاعری
- تیری قربت کے سبھی عکس مرے قیدی تھے
تُونے اے جاں‘ پسِ مژگاں کبھی دیکھا ہی نہ تھا - نہ جانے کیا سمجھ کے چپ ہوں اے صیّاد میں ورنہ
وہ قیدی ہوں‘ اگر چاہوں قفس میں بھی بہار آئے - دل ترے غم کی بارگاہ میں ہے
جیسے قیدی حضورِ شاہ میں ہے - اک حویلی میں چہکتے ہوئے پنچھی کی طرح
تیری آواز ابھی قیدی ہے درباروں میں - قیدی کہاں حبیب خدا کا بسر کہاں
میں آپ میں نہیں مجھے ان کی خبر کہا - ہم قفس زاد قیدی ہیں ورنہ
تا چمن ایک پر فشانی ہے - یہ سن کے وہ کہنے لگا جو کھانا تھا لایا
کس طرح کے مظلوم یہ قیدی ہیں خدایا - وہ قیدی شام کو جاتا ہے دیکھیے کیا ہو
گیا ہے ہم سے تو دامن فشاں امام حسین - نہ چھوٹیں کہیں قیدی زلف تیرے
کہ آزاد ہندوستان ہو رہا ہے - بنا لیا اس نے اپنا قیدی لگا کے عہد وفا کا پھندا
رسن ہے ہاتھوں میں بے بسی کی گلے میں صبر و رضا کا پھندا