مالیت

{ ما + لی + یَت }

تفصیلات

iعربی زبان سے ماخوذ اسم |مالی| کے ساتھ |یت| بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے |مالیت| بنا۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٧٥ء کو "نو طرز مرصع" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

["مال "," مالِیَّت"]

اسم

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )

مالیت کے معنی

١ - دھن، دولت، خزانہ، مال ہونے کی حالت، مال ہونا۔

"اس تہہ خانے میں تھوڑی سی زمین کو کھودوا، اگر یہ مالیت تجھے نہ ملے . تو جو میرے حق میں چاہنا وہ کرنا۔" (١٩٤٥ء، حکایت سخنِ سنج، ٢٩)

٢ - لاگت، قیمت۔

"تخمینے کے مطابق لکڑی کی مالیت کسی طرح سات ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔" (١٩٨٩ء، آب گم، ١٩٤)

٣ - ملکیت

"ناہید جادو نے کہا کہ تو خوب جانتا ہے کہ میں تیری مالیت ہوں، ابھی تو مجھے گلے سے لگا لے۔" (١٨٩٣ء، کوچک باختر (ق)، ٧٣٤)

٤ - وقعت، حیثیت۔

 ہے جہاں عشق واں کمی کیا ہے دل کی کیا مالیت ہے جی کیا ہے (١٨٧٠ء، گلِ عجائب، ٨٤)

مترادف

سرمایہ, متاع