مندر کے معنی
مندر کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ مَن + دِر }
تفصیلات
iسنسکرت زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٤٣٥ء کو "کدم راؤ پدم راؤ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(ھ) بدن","بت کدہ","پرستش گاہ","عبادت خانہ","عبادت گاہ","غلیظ ہونا","گھٹنے کی پچھلی طرف","کسی بت کے رکھے جانے کا مکان","ہندوئوں کی پرستش گاہ","ہندوسادھوئوں کے رہنے کی جگہ"]
اسم
اسم ظرف مکان ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : مَنْدِروں[مَن + دِروں (واؤ مجہول)]
مندر کے معنی
"دکن کے بڑے بڑے مندروں میں بھی اس فن کی بخوبی پرورش ہوتی رہتی تھی۔" (١٩١٦ء، ہندوستان کی موسیقی، ٤)
"اسے اپنے مندر مسجد، گوردوارے چاہئیں۔" (١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٨٠)
شاعری
- میرے بچپن کے مندر کی وہ مورتی دھوپ کے آسماں پہ کھڑی تھی مگر
ایک دن جب مرا قد مکمل ہوا اس کا سارا بدن برف میں دھنس گیا - آمیرے سینے پر سر رکھ اپنے کان سے سن پگلی
میرے بھگوان بول رہے ہیں من مندر کی گھنٹی میں - دیا کتھا نا دھیان کیا مندر بھیا انار
مرے گئے تی مرگئے بانچ بانچن ہار - خود تو آئی ہے مندر میں
من اس کا ہے گڑیا گھر کے روشن دان - گرجا دیکھ مندر دیکھے
دریا دیکھے بندر دیکھے - گلاب آچھے آنگن میں چھنکاؤ کے
پیاری مو مندر کوں چھنداں سوں آئی - جھٹپٹا وقت ہے لب دریا
ایک مندر میں جل رہا ہے دبا - دنیائیں آباد ہیں اب بھی
تیرے نین نگر میں
تیری ہی مورتیا ناچی
میرے من مندر میں - دھوپ اور دیپ کی خوشبو تھی کسی مندر میں
اور کسی مٹھ میں تھیں کافور کی شمعیں روشن - جو پاس ہے ذخیرہ مت رکھ وہ کونے اندر
مسجد‘ کنویں بنا دے‘ تالاب‘ باغ مندر
محاورات
- بھرے سمندر پیاسے
- بھرے سمندر گھونگا ہاتھ
- تن ملا تو کیا ہؤا من کی بجھی نہ پیاس جیسے سیپ سمندر میں کرے تراس تراس
- خرچ سے سمندر خالی ہوجاتا ہے
- سات سمندر پار
- سمندر سوکھ کو دریا کیا
- سمندر کیا جانے دوزخ کا عذاب
- مندرماں سہی سانچ سے راکھو دیپک بال، سانجھ اندھیرے بیٹھنا ہے اتی بھونڈی چال
- نئی جوگن کاٹھ کی مندری
- نیا جوگی اور گاجر کا سنکھ، نیا جوگی کاٹھ کا مندرا