منہ
{ مُنْہ (نون عنہ) }
تفصیلات
iہندی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
منہ کے معنی
رونا کیسا? ڈھانپ کے منہ اب میں آہیں بھرتا ہوں ڈرتا ہوں کہیں جاگ نہ جائے کوئی مرا ہمسایا (١٩٨٨ء، برگد ١٣٧)
"اس سانپ سے مشابہہ جو اپنی دم کو اپنے منہ میں لیے ایک دائرے کو تشکیل دیتا ہے" (١٩٨٩ء، تنقید اور جدید تنقید، ١٩۔)
"کبھی بہت خوشی میں آتے تو منہ سے بے اختیار گانے کے بول نکل جاتے" (١٩٨٩ء، آب گم، ١٣٦)
"بڑھیا نے کھوپرے کو پہلے خود اپنے پوپلے منہ سے چبا چبا کر نرم کیا، پھر مُنہ سے مُنہ ملا کر بچی کے منہ میں ڈالا" (١٩٨٩ء، آب گم، ١١٢)
جو تھی تمہارے دم سے بات وہ مجھے اب کہاں نصیب ایک تمہارے منھ سے تمہیں لاکھ تسلیاں نصیب (١٩٢٥ء، شوق قدوائی، عالم خیال، ١٧)
"اگر برتن کا منھ بہ نسبت درمیانی حصے کے زیادہ چوڑا ہو تو وہ ڈھانچے کے اندر سے آسانی سے نکل سکتا ہے" (١٩١٦ء، گہوارۂ تمدن، ٨٥)
جذب سے تارِ رگ جاں نہ بنا لوں تو سہی منہ مرے زخم پہ گر نشتر فصّاد آیا (١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی، ٥٣)
"نال کے بعد کا حصّہ پوری توپ کی لمبائی سے آدھا تھا اور منہ کے قریب اس کا دہانہ پانچ بالشت تھا" (١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٩٠٥:٣)
"مکھیاں اور کیڑے. جب مادہ پھول پر بیٹھتی ہیں تو ان کی ٹانگوں پر چمٹا ہوا زرگل مادہ پھول کی صراحی کے منہ میں داخل ہو جاتا ہے" (١٩٨٨ء، جدید فصلیں، ٤٩)
نہ توڑے کہیں خود ابل کر شراب کوئی کھول دے منہ خموں سے شتاب (١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٢٧١)
جوہر میں آبرو میں اصالت میں لاجواب وہ قد وہ خم وہ منہ کی صفائی وہ آب و تاب (١٨٧٤ء، انیس مراثی، ٢٠٤:١)
"اس کے ساتھ ہی گھوڑی بھی جدھر اس کا منہ تھا ادھر ہی سیدھی سرپٹ دوڑی" (١٩٤٤ء، رفیق حسین، گوری ہوگوری، ١٩١)
لازم ہے تجھے قدر مرے زخم کہن کی بوسے دیے ہیں اس نے ترے تیر کے مُنہ پر (١٨٢٤ء، دیوان مصحفی (انتخاب رامپور ٨٤))
پڑا ہوں میں کوچہ میں رہنے دے مجھ کو الٰہی ادھر مونہہ نہ ہووے صبا کا (١٧٩٨ء، دیوان میر سوز، ٤٦)
ساری محفل کی کج رُخی دیکھی اک فقط تھا ہمیں تمہارا مُنہ (١٨٩٨ء، دیوان مجروح، ١٥١۔)
پورے نہ اترے آپ مگر اپنے قول میں ہے منہ کہ آپ مجھ کو یہ الزام دے سکیں (١٩٨٤ء، قہرعشق (ترجمہ)، ١١١)
کھینچے کس من ہسے تری مانی شبیہہ سر بجیت آگے تیرے بہزاد ہے (١٨٣٨ء نصیر دہلوی، چمنستان سخن، ٢١١)
سو بار چلے آؤ چلے آنے میں کیا ہے تم منہ کی وفا کا کرو کچھ پاس وفا اور (١٨٩٧ء، کلیات راقم دہلوی، ٧٢)
"سارے دن نسہ کھائے پڑے رہتے ہیں ان کا منہ ہے کہ دوسروں کی سکایت کریں" (١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٣٨٣:١)
"غذا کی نالی لمبی اور بلدار ہوتی ہے اور اپنے دونوں سروں پر کھلی ہوتی ہے، اگلا سوراخ منہ کا اور پچھلا سوراخ موری کا روزن کہلاتا ہے" (١٩٦٥ء، معیاری حیوانیات، ٤٨:١)
"شوقین ہیں کہ کبھی اس دوکان پر ٹھہرے دو دو منہ نہیں بول لیے کبھی اس دُکان پر کھڑے ہو گئے اور مذاق کرنے لگے" (١٩٠٨ء، مخزن، فروری، ٤٥۔)
"کالی گھوڑی. کبھی دو ایک منھ گھاس کھالی اور کھڑی ہے" (١٩٤٤ء رفیق حسین، گوری ہو گوری، ١٨٦)
مرکبات
منہ بولتی, منہ بولی, منہ بولی بہن, منہ بھر, منہ بھرائی, منہ بھر بھر, منہ بھر کے, منہ بھری, منہ بھڑاک, منہ پٹا, منہ پر, منہ پڑی, منہ پہ, منہ پھٹ, منہ پھوڑ کر, منہ پھولا, منہ تک, منہ توپا, منہ توڑ جواب, منہ جلی, منہ جھلسی, منہ جھونسا, منہ چٹول, منہ چڑھا, منہ چڑھی, منہ چنگ, منہ چور, منہ چوری, منہ چھوائی, منہ در منہ, منہ دکھائی, منہ دیکھا, منہ دیکھی, منہ دیکھے کا, منہ دیکھے کی, منہ زبانی, منہ زور, منہ زور پن, منہ زوری, منہ سر لپیٹے, منہ سڑی, منہ سے, منہ فق, منہ کا باجا, منہ کا پھوپڑ, منہ کا سچا, منہ کا سخت, منہ کا کچا, منہ کا کڑا, منہ کا کہنا, منہ کا میٹھا, منہ کا نرم, منہ کا نوالہ, منہ کو, منہ کی, منہ کی پھوڑی, منہ کی بات, منہ کی ٹکیا, منہ کی سچی, منہ کی کچی, منہ کی کراری, منہ کی کڑی, منہ کی کہن, منہ کی گالی, منہ کی وفا, منہ کے بل, منہ کھر, منہ کھول کر, منہ لٹکائے, منہ لگا, منہ ماتھا, منہ مانگا, منہ مانگی, منہ ماری, منہ مانگے, منہ مرا پن, منہ ملا حظہ, منہ میں, منہ نال, منہ ہی منہ, منہ اجالے, منہ اکھری, منہ آئی بات, منہ اٹھا کے, منہ بڑا, منہ بنا کر, منہ بند, منہ بند پان, منہ بند کلی, منہ بولا, منہ بولتا