کردار کے معنی
کردار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کِر + دار }
تفصیلات
iفارسی مصدر |کردن| کے حاصل مصدر |کرد| کے ساتھ |ار| بطور لاحقۂ اسمیت لگانے سے |کردار| بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٤٩ء کو "خاور نامہ "میں مستعمل ملتا ہے۔, m["کرنا","اشخاصِ قصّہ","اناج وغیرہ کے کوڑا کرکٹ کا حق جو وزن میں کم کیا جائے","مرکبات میں جیسے بدکردار","نئی اور پرانی چیز کی کمی کا فرق یا وہ میل کچیل کا حق جو پرانے برتن کو نئے برتن سے بدلواتے وقت کاٹیں یا وہ حق جو نئے برتن میں لاکھ وغیرہ کی بابت کم کرکے دام لگائیں"]
کرد کِرْدار
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : کِرْداروں[کِر + دا + روں (واؤ مجہول)]
کردار کے معنی
"امام ابوحنیفہ . کا احترام ان کی ذہانت علمیّت اور کردار کی وجہ سے ہوتا تھا۔" (١٩٨٥ء، طوبٰی، ٤٠٨)
"تاریخ عالم میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے احکامات کا سراغ ملتا ہے۔" (١٩٨٧ء، اقبال عہد آفرین، ٢٧)
کس غول میں وہ صاعقہ کردار نہ چمکی کس فرق پہ بجلی سی وہ خونخوار نہ چمکی (١٨٧٤ء، انیس مراثی، ٣٤٨:٢)
"اس نے سوچا کہ کہانی ختم ہونے کے بعد نام اور پتہ پوچھ لوں گا، فی الحال بے نام کرداروں کو ہی ذہن میں رکھنا بہتر ہے۔" (١٩٨٧ء، حصار، ٧٥)
کردار کے مترادف
روش, عادت, کام, سیرت, رول[1]
چلن, دھندا, روش, رویہ, سبھاؤ, سیرت, شغل, طرز, طرزِعمل, طریق, طور, عمل, فعل, قاعدہ, کام, کردن, کریکٹر
کردار کے جملے اور مرکبات
کردار سازی, کردار شکنی, کردار نگاری, کردار کشی, کردار آفرینی
شاعری
- جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے - شرمندہ میری روح کی سچائیاں ہوئیں
وہ تبصرہ ضمیر نے کردار پر کیا - وقت ہی کو جو بدل دے‘ وہ ہے انسانِ عظیم
وقت کے ساتھ بدلنا کوئی کردار نہیں - سخن کے نور سے کردار کے اُجالے سے
یہ کائنات بنی ہے ترے حوالے سے - ناٹک میں جیسے بکھرے ہوں کردار جابجا
امجد فضائے جاں میں ہے یوں بے قرار دُھند! - یہ شہر کتھا بھی ہے امجد اک قصہ سوتے جاگتے کا!
ہم دیکھیں جس کردار کو بھی جادو کے اثر میں رہتا ہے - اس کہانی کے وہ کردار کہاں سے لاؤں
وہی دریا ہے وہی کچے گھڑے رکھے ہیں - اس کو مطلب کبھی گرمی بازار نہ تھی
اس کی جو بات تھی کردار تھی گفتار نہ تھی - اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا - ہوا جو تجھ پر قائم تھی سزا کردار کی تیرے
نہ کہتا تھا میں اس بیگانہ خو سے آشنامت ہو
محاورات
- شکردار کی بادلی رہے سنیچر چھائے۔ ایسا بولے بھدری بن برسے نہیں جائے
- کیفر کردار کو پہنچنا