کٹیلی
{ کَٹی + لی }
تفصیلات
iپراکرت سے ماخوذ صفت |کٹیلا| جس کی یہ تانیث ہے اور اردو میں اپنے ماخذ معانی کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور صفت ہی استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٨٠٣ء کو "اخلاق ہندی" میں مستعمل ملتا ہے۔
[""]
اسم
صفت ذاتی ( مؤنث - واحد )
کٹیلی کے معنی
"گھاؤ تو لگتا ہی لگتا ہے، بھابی جب انسان کے وجود میں کوئی کٹیلی چیز اترتی ہے تو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے۔" (١٩٨١ء، چلتا مسافر، ١٠٥)
"سنجوگ بولا کہ . میں نے خداوند کے اقبال سے بڑی کٹیلی فوج جمع کی ہے۔" (١٨٠٣ء، اخلاقِ ہندی، ٩٦)
"ہندوستانی سمپورن سنگیت کے میٹھے بول، رسیلی تانیں، کٹیلی ترکیبیں اور سہانے بھاؤ رچے بسے ہوں۔" (١٩٦١ء، ہماری موسیقی، ١٣٨)
"وہ کون بلند حوصلہ، صاحبِ ہمت اور اولوالعزم اصحاب ہیں جو ان کٹیلی جھاڑیوں کو طے کرتے ہیں۔" (١٨٩٧ء، البرامکہ، ٢٥)
"کٹیلی کے جوشاندے کے ساتھ دینے سے بلغم کی کھانسی جاتی رہتی ہے۔" رجوع کریں: (١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ٩:٢)