گئے کے معنی
گئے کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ گَئے }
تفصیلات
١ - گیا کی جمع مذکر، تراکیب میں مستعمل۔, m["(ماضی صیغہ جمع) جانا کی"]
اسم
اسم نکرہ
گئے کے معنی
١ - گیا کی جمع مذکر، تراکیب میں مستعمل۔
گئے کے جملے اور مرکبات
گئے پر, گئے دن, گئے سے گیا, گئے کو, گئے گزرے
شاعری
- مرزبوم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اُس کی اُور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا - واں تعلل ہی تجھے کرتے گئے شام و سحر
یاں ترے مشتاق کا مرنا بہانا ہوگیا - اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھئے
جیسے کوئی کسو کا نگر ہو لٹا ہوا - اگرچہ رہ گئے تھے استخوان و پوست و لے
لگائی ایسی کہ تسمہ بھی پھر لگا نہ رہا - طے دن گئے کہ اشک سے چھڑکاؤ سا کیا
اب رونے لگ گئے ہیں تو تالاب سا ہوا - جی رُک گئے اے ہمدم دل خون ہو بھر آیا
اب ضبط کریں کب تک منہ تک تو جگر آیا - صنم خانے سے اٹھ کعبے گئے ہم
کوئی آخر ہمارا بھی خدا تھا - وے دن گئے کہ طاقتِ دل کا تھا اعتماد
اب یوں کھڑے کھڑے نہ مرا امتحان کر - بہ گئے عمر ہوئی ابر بہاری کو وے
لہو برسا رہے ہیں دیدۂ خونبار ہنوز - دل گرمیاں اُنھیں کی غیروں سے جب نہ تب تھیں
مجلس میں جب گئے ہم غیرت نے جی جلائے
محاورات
- آئے پیر گھر کا بھی لے گئے
- آئے کی خوشی نہ گئے کا غم
- آب آب کر مر گئے سرھانے دھرا رہا پانی
- آب آب کرکے مرگئے‘ سرہانے دھرا رہا پانی
- آپ گئے اور آس پاس
- آپ کہاں آئے یا (چلے) آتے ہیں۔ آپ کہیں رستہ تو نہیں بھول گئے
- آج گئے کل آئے
- آچھے دن پاچھے گئے ہر سے کیا نہ ہیت۔ اب پچھتائے کیا ہوت ، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
- آرتی کے وقت سو گئے بھوگ کے وقت جاگ اٹھے
- آرے سر پر چل گئے تو بھی مدار ہی مدار