یقین کے معنی

یقین کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ یَقِیْن }

تفصیلات

١ - بے شبہ، بلاشک، ضرور، بالضرور، البتہ ٹھیک، تحقیق۔, m["درست ماننا","(یَقَنَ ۔ درست ماننا)","بے شبہ","خاطر جمع","دل جمعی","ظن غالب"]

اسم

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )

یقین کے معنی

١ - بے شبہ، بلاشک، ضرور، بالضرور، البتہ ٹھیک، تحقیق۔

٢ - پرتیت، پتیارا، اعتبار، اعتماد۔

٣ - مرگ، موت۔

٤ - [ مجازا ] گمان، ظن، ظن غالب۔

٥ - خاطر جمع، دل جمعی، اطمینان، بھروسا۔

یقین کے مترادف

ایمان

اطمینان, اعتبار, اعتقاد, اعتماد, البتہ, ایقان, ایمان, بالضرور, بلاشک, بھروسا, تیقن, درست, ضرور, ظن, گمان, نپشحے, وثوق, ٹھیک

یقین english meaning

Certain or sure knowledgecertaintyassuranceconfidenceconvictionbeliefopinion; trothtrue faithin fallibilityevidencedefinitenessfaithpositivenesstrustunequivocal terms

شاعری

  • ظفر ملا تو یقین رکھنا
    ملے گا اوہام کے کنارے
  • ہَوا بُرد

    مِرے ہم سَفر
    مِرے جسم و جاں کے ہر ایک رشتے سے معتبر‘ مرے ہم سَفر
    تجھے یاد ہیں! تجھے یاد ہیں!
    وہ جو قربتوں کے سُرور میں
    تری آرزو کے حصار میں
    مِری خواہشوں کے وفور میں
    کئی ذائقے تھے گُھلے ہُوئے
    درِ گلستاں سے بہار تک
    وہ جو راستے تھے‘ کُھلے ہُوئے!
    سرِ لوحِ جاں‘
    کسی اجنبی سی زبان کے
    وہ جو خُوشنما سے حروف تھے!
    وہ جو سرخوشی کا غبار سا تھا چہار سُو
    جہاں ایک دُوجے کے رُوبرو
    ہمیں اپنی رُوحوں میں پھیلتی کسی نغمگی کی خبر ملی
    کِسی روشنی کی نظر ملی‘
    ہمیں روشنی کی نظر ملی تو جو ریزہ ریزہ سے عکس تھے
    وہ بہم ہُوئے
    وہ بہم ہُوئے تو پتہ چلا
    کہ جو آگ سی ہے شرر فشاں مِری خاک میں
    اُسی آگ کا
    کوئی اَن بُجھا سا نشان ہے‘ تری خاک میں!
    اسی خاکداں میں وہ خواب ہے
    جسے شکل دینے کے واسطے
    یہ جو شش جہات کا کھیل ہے یہ رواں ہُوا
    اسی روشنی سے ’’مکاں‘‘ بنا‘ اسی روشنی سے ’’زماں‘‘ ہُوا
    یہ جو ہر گُماں کا یقین ہے!
    وہ جو ہر یقیں کا گمان تھا!
    اسی داستاں کا بیان تھا!
  • مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر!
    یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
    اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
    مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
    مِرے خواب ریت میں کھوگئے
    مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
    مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
    وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
    وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
    وہ نہیں رہے
    وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
    وہ ہَوا چلی
    کسی شام ایسی ہَوا چلی
    کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
    وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
    وہ جو راستوں کا یقین تھے
    وہ جو منزلوں کے امین تھے
    وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
    مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
    مگر ایک موڑ کے فرق سے
    ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
    وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
    کئی موسموں میں بدل گیا
    اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
    مرا سارا وقت نکل گیا
    تو مِرے سفر کا شریک ہے
    میں ترے سفر کا شریک ہوں
    پہ جو درمیاں سے نکل گیا
    اُسی فاصلے کے شمار میں
    اُسی بے یقیں سے غبار میں
    اُسی رہگزر کے حصار میں
    ترا راستہ کوئی اور ہے
    مرا راستہ کوئی اور ہے
  • ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!

    زمیں پہ آگ تھی تارے لہُو میں لتھڑے تھے
    ہَوا کے ہاتھ میں خنجر تھا اور پُھولوں کی
    پھٹی پھٹی ہُوئی آنکھوں میں ایک دہشت تھی
    ارادے ٹوٹتے جاتے تھے اور اُمیدیں
    حصارِ دشت میں ‘ بکھری تھیں اِس طرح‘ جیسے
    نشان‘ بھٹکے ہُوئے قافلوں کے رہ جائیں

    ہمارے پاس سے لمحے گَزرتے جاتے تھے
    کبھی یقین کی صورت ‘ کبھی گُماں کی طرح
    اُبھرتا‘ ڈوبتا جاتا تھا وسوسوں میں دِل
    ہوائے تند میں کشتی کے بادباں کی طرح
    عجیب خوف کا منظر ہمارے دھیان میں تھا
    سروں پہ دُھوپ تھی اور مہر سائبان میں تھا

    چراغ بُجھتے تھے لیکن دُھواں نہ دیتے تھے
    نہیں تھی رات مگر رَت جگا مکان میں تھا!

    حروف بھیگے ہُوئے کاغذوں پہ پھیلے تھے
    تھا اپنا ذکر‘ مگر اجنبی زبان میں تھا

    نظر پہ دُھند کا پہرا تھا اور آئینہ
    کسی کے عکسِ فسوں ساز کے گُمان میں تھا

    ہم ایک راہ پہ چلتے تو کس طرح چلتے!
    تری زمیں کسی اور ہی مدار میں تھی
    مِرا ستارا کسی اور آسمان میں تھا
    ہم ایک دُوجے سے ملتے تو کس طرح ملتے!
    سَمے کا تیز سمندر جو درمیان میں تھا
  • ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
    پہ عمر کیسے کٹے گی ، اگر نہیں آیا!
  • یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پہ یقین نہ کر
    نہیں عکس کوئی بھی مستقل، سرِ آئینہ، اُسے بھول جا
  • پھر ان کے نیچے درندوں کے نام کس نے لکھے
    ہمیں یقین ہے یہ سب ہمارے چہرے ہیں
  • یقین یہ نامہ تیرا کیا بلالائے گا ڈرتا ہوں
    لگا مت گھر کو اپنے آگ اے آتش نفس چپ رہ
  • باطل کا کیا مقابلہ شمع یقین سے
    بجھتا ہے یہ چراغ کہیں آستین سے
  • پھڑکے ہزار بار آنکھ اس کو تر کچھ نہ جانوں گی
    دل مرا دے گا آسرا تو میں یقین مانوں گی

محاورات

  • چل جھوٹا (جھوٹی) (مجھے کب یقین آتا ہے)
  • قرآن شریف کا جامہ پہن کر آئے تو یقین نہ کرنا
  • قرآن کا جامہ پہنو تو بھی یقین نہ آئے
  • کس کافر کو اعتبار (یقین) آئے گا
  • یقین بڑا رہبر ہے
  • یقین لانا
  • یقین کرنا

Related Words of "یقین":