باب کے معنی
باب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ باب }
تفصیلات
iعربی زبان میں اسم جامد ہے اور عربی زبان سے ہی اردو میں ماخوذ ہے اور اصلی حالت میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ گاہے بطور صفت بھی مستعمل ملتا ہے سب سے پہلے ١٥٨٢ء میں "کلمۃ الحقائق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["ایک قسم کا ٹیکس (جمع استعمال ہوتا ہے)","جمع : ابواب","حصّہ کتاب","مصدر کے ماضی و مستقبل کی تصریف","مضمونِ بحث","موضوع سخن","کتاب کا حصہ","کتاب کے حصے"]
اسم
صفت ذاتی, اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- ["جمع : اَبْواب[اَب + واب]","جمع غیر ندائی : بابوں[با + بوں (واؤ مجہول)]"]
- ["جمع : اَبْوَاب[اَب + واب]","جمع غیر ندائی : بابوں[با + بوں (واؤ مجہول)]"]
باب کے معنی
[" دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا عشق نبرد پیشہ، طلب گار مرد تھا (١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ١٥٤)"]
["\"سلطان . کا مزاج . کسل مند ہے، باب ملاقات . بند ہے۔\" (١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ٦٧:١)","\"انتقاد کے باب میں جن دشواریوں . کا ابھی ذکر ہوا ہے۔\" (١٩٢٣ء، سیف و سبو (دیباچہ)، جوش، ١٠)","\"ان کا . یہ دعویٰ ہے کہ یہ امام منتظر کے باب ہیں۔\" (١٩٢٦ء، شرر، مضامین شرر، ١٢٠:٣)"," حسن کی ایک فصل ہے، عشق کا ایک باب ہے دیکھ چکے ہیں ہم اسے، دہر نما کتاب ہے","\"مصدر بکسر الف مصدر باب افعال ہے مضبوط ہونا۔\" (١٨٧٢ء، عطر مجموعہ، ٥١:١)","\"اہل عرب . صفائی کا نام نہیں جانتے تھے، اس بنا پر اس خاص باب میں آپ کو نہایت اہتمام کرنا پڑا تھا۔\" (١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ١٠٦:٢)"]
باب کے مترادف
در, مقالہ, نوع, فصل
ادھیائے, امر, بارہ, پھاٹک, حق, در, دربار, درگاہ, دروازہ, دفعہ, دوارا, عنوان, فصل, قابل, قسم, لائق, متعلق, معاملہ, مقدمہ, نوع
باب کے جملے اور مرکبات
باب اثر, باب اجابت, باب الجہاد, باب الذکر, باب الریان, باب الصدقہ, باب الصلوۃ, باب العلم, باب توبہ, باب عالی, باب الکبد, باب وار, باب الابواب, باب علم, باب یافت
باب english meaning
abscondedhiding the face
شاعری
- بیٹھے ہو میر ہو کے در کعبہ پر فقیر
اس روسیہ کے باب میں بھی کچھ دعا کرو - ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز - رونا آنکھوں کا رویئے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں - ٹھہرے جو مرا ذکر ضروری تو کسی طور
میرے لئے مخصوص کوئی باب نہ کرنا - وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا - میرا تمام فن ‘ مِری کاوش مِرا ریاض
اِک ناتمام گیت کے مصرعے ہیں جن کے بیچ
معنی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا میل
انجام جس کے طے نہ ہُوا ہو‘ اِک ایسا کھیل!
مری متاع‘ بس یہی جادُو ہے عشق کا
سیکھا ہے جس کو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ
لیکن یہ سحرِ عشق کا تحفہ عجیب ہے
کھلتا نہیں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ!
تقدیر کی عطا ہے یا کوئی سزا ہے یہ!
کس سے کہیں اے جاں کہ یہ قصہ عجیب ہے
کہنے کو یوں تو عشق کا جادو ہے میرے پاس
پر میرے دِل کے واسطے اتنا ہے اس کا بوجھ
سینے سے اِک پہاڑ سا‘ ہٹتا نہیں ہے یہ
لیکن اثر کے باب میں ہلکا ہے اس قدر
تجھ پر اگر چلاؤں تو چلتا نہیں ہے یہ!! - کالا جادُو
میرا تمام فن‘ مِری کاوش‘ مِرا ریاض
اِک ناتمام گیت کے مِصرعے ہیں جن کے بیچ
معنی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا میل
انجام جس کا طے نہ ہُوا ہو‘ اِک ایسا کھیل!
مری متاع‘ بس یہی جادُو ہے عشق کا
سیکھا ہے جس کو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ
لیکن یہ سحرِ عشق کا تحفہ عجیب ہے
کھلتا نہیں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ!
تقدیر کی عطا ہے یا کوئی سَزا ہے یہ!
کس سے کہیں اے جاں کہ یہ قصّہ عجیب ہے
کہنے کو یوں تو عشق کا جادُو ہے میرے پاس
پر میرے دل کے واسطے اتنا ہے اِس کا بوجھ
سینے سے اِک پہاڑ سا‘ ہٹتا نہیں ہے یہ
لیکن اَثر کے باب میں ہلکا ہے اِس قدر
تجھ پر اگر چلاؤں تو چلتا نہیں ہے یہ!! - داستانِ شکست دل ہے وہی
ایک دو چار باب تازہ ہیں - جادو گر کی قید میں تھے جب شہزادے
قصے کا وہ باب گزرنے والا ہے - وفا کے باب میں لفظوں کے سلسلے تھے بہت
کہیں کسی کو مری جاں، مکر ہی جانا تھا
محاورات
- اسباب میں اسباب ایک چنگ ایک رباب
- باب اجابت باز ہونا
- باب توبہ بند ہونا
- باب وا ہونا
- بابا آئیں نہ گھنٹہ باجے
- بابا آئے تالی باجے
- بابا آدم بدل گیا
- بابا آدم نرالا ہے
- بابا آدم کے پوتے ہیں
- بابا آدم کے زمانے کا