باف کے معنی
باف کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ باف }
تفصیلات
iفارسی زبان میں مصدر بافتن سے مشتق صیغۂ امر ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے گاہے بطور اسم بھی مستعمل ہے البتہ عام طور پر بطور لاحقۂ فاعلی مستعمل ہے۔ ١٦٩٧ء میں |ہاشمی| کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اسما کے آخیر میں آکر فاعل بناتا ہے جیسے دریائی باف، بوریا باف","اُون کا بُنا ہوا","اونی یا سُوتی دھاگوں سے بُنا ہوا لبادہ / لباس / جزوِ ملبوسات","بافتن۔ بُننا","بُنا ہوا","بننے والا","بُننے والا","دھاگوں سے بُنا ہوا لبادہ / لباس / جزوِ ملبوسات","فارسی لاحقہ \" بافتن \" سے امر کا صیغہ جو کسی اسم کے آخر میں آکر اُسے اسمِ فاعل ترکیبی بنا دیتا ہے اور بُننے والا کے معنی دیتا ہے جیسے پارچہ باف ، زر باف وغیرہ"]
بافتن باف
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
باف کے معنی
"صرف قرطبہ میں تیس ہزار ریشم باف تھے۔" (١٩٢٠ء، اسلامی معاشرت، ٢٧)
باف english meaning
weavingwoven
شاعری
- توں اوڑھنی سوں مت پکڑ پشواز کی دکھلالئی
دکھلا کے اوئی کرنے نشر شلوار کے اطلس کا باف - اگر بید آئے تو بن بید باف
نہ آئے نظر دور تک راہ صاف - اے ماہ خانگی ترے برقع کو دیکھ کر
تہ کی سفید باف فلک نے ردائے صبح - کہا سب دیکھنے والوں نے دشمن ریِیا صاحب
نیا پہنا جب اون نے مخمل زر باف کا جوڑا - کہیں ہے شال باف ایسا جو جاڑوں تک بنا دیوے
ہمیں ایک اس صنم کے موئے ہائے جعد کا جوڑا
محاورات
- بوریہ باف گرچہ بافندست نہ برندش بہ کار گاہ حریر
- تھوڑ مول کی کاملی کرے بڑوں کا کام۔ محمودی اور بافتہ سب کی رکھے مان
- معلوم شد معلوم شد ذات شما بافندگی