باڑا
{ با + ڑا }
تفصیلات
iسنسکرت میں اصل لفظ |باٹ| ہے۔ اردو میں اس سے ماخوذ |باڑا| مستعمل ہے۔ ہندی میں بھی |باڑا| ہی مستعمل ہے۔ ماخذ ایک ہی ہے۔ ١٦٣٩ء میں غواصی کے "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
["باٹ+ک "," باڑا"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- واحد غیر ندائی : باڑے[با + ڑے]
- جمع : باڑے[با + ڑے]
- جمع غیر ندائی : باڑوں[با + ڑوں (و مجہول)]
باڑا کے معنی
"کاشتکار ان کو اکھیڑ کر کھیتوں کے باڑے بنانے کے کام میں لاتے ہیں۔" (١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٥٧)
"اطلاع پر اطلاع مسجدوں اور امام باڑوں کے منہدم کیے جانے کی آ رہی تھی۔" (١٩٣٢ء، ریاض خیر آبادی، نثر ریاض، ٧١)
"گایوں کو دیکھنے بھالنے کے لیے باڑے کی طرف جا رہا ہے۔" (١٩٠١ء، جنگل میں منگل، ٤٩)
"کوئی غیر شخص - ہندو راو کے باڑے یا صدر میں جا کے دیکھے - ایسی اشتعال طبع کی باتیں سنے گا کہ اسے ڈر معلوم ہو گا۔" (١٩٢٨ء، حیرت، مضامین، ٢٥٢)
گھاگرا کے پاس باڑہ ہو اگر کوئی وسیع بیل رکھا کی نمائش کا وہاں ہو انصرام (١٩٢٤ء، دیوانجی، ٣١٥:٣)
"یہ نگوڑا باڑے کا فقیر مکار اٹھائی گیرا میری قسمت میں لکھا تھا۔" (١٨٩٢ء، طلسم ہوشربا، ٩٤٩:٧)
اتار کر ان کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے (١٩٠٥ء، حدائق بخشش، ٦٥:١)
انگلش
["enclosed space","enclosure","area","cemetery; fence","hedge; alms","charity"]