برگ کے معنی
برگ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَرْگ }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٤٩ء میں |خاورنامہ| میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(ریاضی) مربع کسی عدد کا","ایک جیسی چیزوں کی جماعت یا گروہ","ایک سُر","ایک قسم کا ساز","پھول کی پتّی (برگِ گُل)","حصّہ (کتاب کا)","گل برگ","لڑائی کا ہتھیار","وینجن یا حروف صحیح کی اقسام بلحاظ مخرج جیسے تالو سے، زبان کئ جڑ سے نکلنے والے وغیرہ"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : بَرْگوں[بَر + گوں (واؤ مجہول)]
برگ کے معنی
ہے برگ خزاں دیدہ میں روداد بہاراں تو ہوش سے دیکھے تو یہ دیوانہ بنا دے (١٩٣٢ء، نقوش مانی، ١٧١)
شعر کیا ہے نیم بیداری میں بہنا موج کا برگ گل پر نیند میں شبنم کے گرنے کی صدا (١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٥٨)
جاتے ہیں کشاں کشاں سوے مرگ پاس ان کے نہ ساز ہے نہ کچھ برگ (١٩٢٧ء، تنظیم الحیات، ١٦٩)
|ٹریڈ کنا ایک دو برگی صدف ہے جس کا ہر نصف یا برگ - چوڑا ہوا کرتا ہے۔" (١٩١٦ء، طبقات الارض، ٦٨)
بڈھا یا تہیں برگ دھرپت کی پال نہالاں خیالوں کے تجھ تی نہال (١٦٥٧ء، گلشن عشق، نصرتی، ٢٧)
برگ کے مترادف
پترا, پات, ورق
اسباب, باب, بار, پات, پتّا, توشہ, سامان, صنف, فرع, فصل, قسم, مربع, نوع, ورق
برگ english meaning
leafpetalprovisions for journeya door-keepera leafa musical instrumenta porterapartasidemelodynecessary ; of use ; useful ; wanted (ly) ; needed (ly)out of the wayprovisions for a journeywantingwarlike apparatus
شاعری
- جوں برگ ہائے لالہ پریشان ہوگیا
مذکور کیا ہے اب جگرِ لخت لخت کا - گلشن کے طائروں نے کیا بیمروتی کی
یک برگ گل قفس میں ہم تک نہ کوئی لایا - ہوں زرد غمِ تازہ نہالانِ چمن سے!
اس باغِ خزاں دیدہ میں میں برگ خزاں ہوں - کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشکِ بہار
رقعہ واریں ہیں یہ اورق خزانی اُس کی - بس میں دو برگ گل قفس میں صبا!
نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے - برگ حنا پہ جا کے لکھوں اپنے دل کی بات
جو رفتہ رفتہ جا کے لگے دلربا کے ہات - مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر!
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھوگئے
مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے - بارش
ایک ہی بارش برس رہی ہے چاروں جانب
بام و در پر… شجر حجر پر
گھاس کے اُجلے نرم بدن اور ٹین کی چھت پر
شاخ شاخ میں اُگنے والے برگ و ثمر پر‘
لیکن اس کی دل میں اُترتی مُگّھم سی آواز کے اندر
جانے کتنی آوازیں ہیں…!!
قطرہ قطرہ دل میں اُترنے ‘ پھیلنے والی آوازیں
جن کو ہم محسوس تو کرسکتے ہیں لیکن
لفظوں میں دوہرا نہیں پاتے
جانتے ہیں‘ سمجھا نہیں پاتے
جیسے پت جھڑ کے موسم میں ایک ہی پیڑ پہ اُگنے والے
ہر پتّے پر ایسا ایک سماں ہوتا ہے
جو بس اُس کا ہی ہوتا ہے
جیسے ایک ہی دُھن کے اندر بجنے والے ساز
اور اُن کی آواز…
کھڑکی کے شیشوں پر پڑتی بوندوں کی آواز کا جادُو
رِم جھم کے آہنگ میں ڈھل کر سرگوشی بن جاتا ہے
اور لہُو کے خلیے اُس کی باتیں سُن لگ جاتے ہیں‘
ماضی‘ حال اور مستقبل ‘ تینوں کے چہرے
گڈ مڈ سے ہوجاتے ہیں
آپس میں کھو جاتے ہیں
چاروں جانب ایک دھنک کا پردہ سا لہراتا ہے
وقت کا پہیّہ چلتے چلتے‘ تھوڑی دیر کو تھم جاتا ہے - بادل… میں اور تم
بادل کے اور بحر کے رشتے عجیب ہیں!
کالی گھٹا کے دوش پہ برفوں کا رخت ہے
جتنے زمیں پہ بہتے ہیں دریا‘ سبھی کا رُخ
اِک بحر بے کنار کی منزل کی سمت ہے
خوابوں میں ایک بھیگی ہُوئی خُوش دِلی کے ساتھ
ملتی ہے آشنا سے کوئی اجنبی سی موج
بادل بھنور کے ہاتھ سے لیتے ہیں اپنا رزق
پھر اس کو بانٹتے ہیں عجب بے رُخی کے ساتھ!
جنگل میں‘ صحن باغ میں‘ شہروں میں‘ دشت میں
چشموں میں‘ آبشار میں‘ جھیلوں کے طشت میں
گاہے یہ اوس بن کے سنورتے ہیں برگ برگ
گاہے کسی کی آنکھ میں بھرتے ہیں اس طرح
آنسو کی ایک بُوند میں دجلہ دکھائی دے
اور دُوسرے ہی پَل میں جو دیکھو تو دُور تک
ریگ روانِ درد کا صحرا دکھائی دے!
بادل کے اور بحر کے جتنے ہیں سلسلے
مُجھ سے بھی تیری آنکھ کے رشتے‘ وہی تو ہیں!! - کسی دل کُشا سی پکار سے اُسی ایک بادِ بہار سے
کہیں برگ برگ نمو ملی، کہیں زخم زخم ہرا ہوا
محاورات
- ایمان برگشتہ ہونا
- برگ سبز است تحفۂ درویش
- تربیت نا اہل راچوں گردگاں برگنبد است
- تقدیر کا برگشتہ ہونا
- چو برگردد فلک کجکول سازد تاج شاہی را
- دروغ برگردن راوی
- دھن جوڑن کے دھیان میں یونہی عمر نہ کھو۔ موتی برگے مول کے کبھی نہ ٹھیکر ہو
- روکھ بنانا نگری سو ہے بن برگن ناکڑیاں۔ پوت بنا نہ ماتا سوہے لکھ سونے میں جڑیاں
- ستارہ برگشتہ ہونا
- شجر تمنا بے برگ و بار ہونا