بس کے معنی
بس کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَس }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم |بسیار| کی تخفیف ہے۔ اردو میں بطور صفت اور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(امر) بسنا کا","(امر) بُسنا کا","(س ۔ وس ۔ کسی جگہ رہنا)","آہستہ چلانا","ایک قسم کی سواری کی موٹر","بہت یا نہایت زیادہ","حاصل کلام","دست رس","مویشی چھوڑ دینا","کثرت سے"]
اسم
صفت ذاتی ( واحد ), متعلق فعل
بس کے معنی
[" اکملت لکم دینکم اسلام کو بس ہے باقی ہے اگر کچھ تو وہ دنیا کی ہوس ہے (١٩٢١ء، اکبر، گاندھی نامہ، ٩)","\"بستی اجڑنا تو سہل ہے لیکن بسنا بس دشوار۔\" (١٩٤٠ء، یہ دلی ہے، ٨)","\"اسی پر بس نہیں سارے جہاں کے غلیظ اور میلے کچیلے مقامات میں مکھی کا گزر ہے۔\" (١٩١١ء، سی پارۂ دل، ٦٠:١)"]
["\"جناب شیخ عبداللہ مازند رانی جناب اخوند کےساتھی ہیں، اور بس۔\" (١٩١٢ء، روز نامچۂ سیاحت، ٦١)"," سو بار دے کے جام و خم ممنوں ساقی نے کیا اس کا تقاضا تھا کہ پی میری گزارش تھی کہ بس (١٩٣٢ء، اعجاز نوح، ٨٥)"," تلوار بھی ہے وہ بھی ہیں میں بھی ہوں قضا بھی قسمت میں جو ہونا ہے وہ ہو جائے گا بس آج (١٩٤٧ء، شاد، میخانہ الہام، ١٢٢)"," گھوڑے سے بس ملا دیا گھوڑا بصد جلال اتنے بڑھے کہ لڑ گئی اس کے سپر سے ڈھال (١٨٧٢ء، انیس، مراثی، ١٠٤:٢)"," ہاتھ میں نے جو پڑھایا تو کہا بس بہت پاؤں نہ پھیلائیے گا (١٩٠٠ء، امیر (نوراللغات)، ٦٣٢:١)"," جتنی قومیں ہیں ہنر ہی سے ہیں وہ مالا مال جتنے نوکر ہیں وہ چھوٹے کہ ہوئے بس کنگال (١٨٩٦ء، تجلیات عشق، اکبر، ٣٨٩)"," یہ بیخود ہے کہ بس اٹھ کھڑے ہوئے گھر سے نکل کے جائیں گے گھر سے کہاں نہیں معلوم (١٨٨٦ء، دیوان سخن، ١٣١)"," بس خدا حافظ چلانا کامگار زندگی ہو مبارک آپ کو عیش بہار زندگی (١٩٣٢ء، نقوش مانی، ١٢)"," اب کون روکے شیر بڑھے جب تو بس بڑھے مقتل میں بیسں ہو کے لڑے جو کہ دس بڑھے (١٨٧٢ء، انیس، مراثی، ١٨٥:١)"," نام عیسٰی کا کوئی لے کے نکل جائے دم تنگ جینے سے ہے ایسا دل بیمار کہ بس (١٨٧٧ء، کلیات قلق، ٧١)"]
بس کے مترادف
بہت, قابو, مجال
(س۔وَگ), اختیار, بل, چارہ, حکم, داؤں, دخل, رسوخ, زور, طاقت, علاج, قابو, قدرت, قوت, مرضی, موقع
بس english meaning
no morea vehicleabundantand soauthoritybuscontrolenoughexpandedhaltholdin shortinfluencemental worryomnibusor to become proudplentypoisonpowersproutingstopsufficientswaythat will doto close (the day)to decline (the sun)to have the head turnedtoo muchvenom
شاعری
- بس طبیب اُٹھ جا مری بالیں سے مت دے درد سر
کام جاں آخر ہُوا اب فائدہ تدبیر کا - بس اے گریہ آنکھیں ترے کیا نہیں ہیں
کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا - بس اے میر مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو
تو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا - اپنے شہید ناز سے بس ہاتھ اٹھا کہ پھر
دیوانِ حشر میں اُسے لایا نہ جائے گا - وحشی مزاج از بس مانوس بادیہ ہے
ان کے جنوں میں جنگل اپنا ہوا ہے گھرسا - جوں توں کر حال دل اکبار تو میں عرض کیا
میر صاحب جی بس اب باردگر مت پوچھو - بس نہیں مجھ ناتواں کا ہائے جو کچھ کرسکوں
مُدعی پُرچک سے اُس کی پڑگیا ہے ور بہت - عبث پوچھے ہے مجھ سے میر میں صحرا کو جاتا ہوں
خرابی ہے یہ دل رکھا ہے جو تونے تو بس بہتر - یہ عشق بے اجل کُش ہے بس اے دل اب توکل کر
اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر - درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے
اب دوا کی بھی احتیاج نہیں
محاورات
- گاؤں بسنتے بھوتلے۔ شہر بسنتے دیو
- آب بہ ریسماں بستن
- آپا بسر کرنا
- آج بسیروا نیار ، کل بسیروا دور
- آدمی جانے بسے سونا جانے کسے
- آدمی دیکھو بس کر سونا دیکھو کس کر
- آدھی روٹی بس کایتھ ہیں کہ پس
- آسماں کردو بر ہرآنچہ ہمت بستی
- آفاقہا گردیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام۔ بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
- آگے پیچھے سب چل بسینگے (دینگے)