تاج کے معنی
تاج کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تاج }شاہی ٹوپیبادشاہی ٹوپی
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم مجرد ہے۔ اردو میں ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔, m["برجی جو کسی مکان یا دیوار پر سجاوٹ کے لئے لگاتے ہیں","پرند کی کلغی","پروں کا طُرّہ","دیوار کی کنگنی","سر پیچ","شاہی ٹوپی","گنجفے کی پہلی بازی کا نام","مکان کا چھجا","کلاہِ شاہی"], ,
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد ), اسم
اقسام اسم
- جمع غیر ندائی : تاجوں[تا + جوں (و مجہول)]
- لڑکا
- لڑکی
تاج کے معنی
"شہر ستانی کے بعد علم الکلام کا تاج امام فخرالدین رازی کے سر پر رکھا گیا۔" (١٩٠٢ء، علم الکلام، ٦٨:١)
"اکثر قبائل جو تاج ساسانی کے طرف دار تھے انھیں درفش کا ویانی کے نیچے جمع ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔" (١٩٠٠ء، ایام عرب، ٢٤٩:٢)
"جس مرغ کا تاج بڑا اور سیدھا اور کنگرہ دار اور لولکیاں زیادہ نیچے لٹکی ہوں اس کو بہنگم کہتے ہیں۔" (١٨٨٣ء، صیدگاہ شوکتی، ١٩٢)
"شاخ یا تاج کو قطع کر دینے کا دستور بہ نسبت ہندوستان کے یورپ میں عام ہے۔" (١٩٠٧ء، مصرف جنگلات، ٢٠٠)
تاج کے مترادف
ٹوپی, عمامہ, کلاہ, افسر[1], کلغی
افسر, اورنگ, اکلیل, دیہم, قلنسوہ, مّکٹ, مکٹ, مُکٹ, کلاہ, کلغی
تاج کے جملے اور مرکبات
تاج سکندری, تاج شمع, تاج گاہ, تاج گر, تاج گزاری, تاج گل, تاج مبارک, تاج وری, تاج ہدہد
تاج english meaning
the crown(cock|s) comba cresta crowna diadema suit in cardscomb (of a cock)crestcrowndiademplumesovereign authorityto obtain an introductionTaj
شاعری
- جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا - دلی میں آج بھیکھ بھی ملتی نہیں انھیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا - دل نے اِک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
تونے اک بات کہی‘ لاکھ فسانے نکلے - اہلِ نظر کی آنکھ میں تاج و کلاہ کیا!
سایا ہو جن پہ درد کا‘ اُن کو پناہ کیا؟ - زنجیرِ عدل اب نہیں کھینچے گا کوئی ہاتھ
رُلنے ہیں اب تو پاؤں میں تاج وکُلاہ تک - خُدا اور خلقِ خُدا
یہ خلقِ خُدا جو بکھرے ہُوئے
بے نام و نشاں پتّوں کی طرح
بے چین ہَوا کے رَستے میں گھبرائی ہوئی سی پھرتی ہے
آنکھوں میں شکستہ خواب لیے
سینے میں دلِ بیتاب لیے
ہونٹوں میں کراہیں ضبط کیے
ماتھے کے دریدہ صفحے پر
اِک مہرِ ندامت ثبت کیے ٹھکرائی ہوئی سی پھرتی ہے
اے اہلِ چشم اے اہلِ جفا!
یہ طبل و علم یہ تاج و کُلاہ و تختِ شہی
اس وقت تمہارے ساتھ سہی
تاریخ مگر یہ کہتی ہے
اسی خلقِ خدا کے ملبے سے اِک گُونج کہیں سے اُٹھتی ہے
یہ دھرتی کروٹ لیتی ہے اور منظر بدلے جاتے ہیں
یہ طبل و عَلم ‘ یہ تختِ شہی‘ سب خلقِ خدا کے ملبے کا
اِک حصّہ بنتے جاتے ہیں
ہر راج محل کے پہلو میں اِک رستہ ایسا ہوتا ہے
مقتل کی طرف جو کھُلتا ہے اور بِن بتلائے آتا ہے
تختوں کو خالی کرتا ہے اور قبریں بھرتا جاتا ہے - مملکت حُسن سی نہیں کوئی
عشق سا کوئی تخت و تاج نہیں - اہلِ نظر کی آنکھ میں تاج و کلاہ کیا!
سایا ہو جن پہ درد کا، اُن کو پناہ کیا؟ - رنجیرِ عدل اب نہیں کھینچے گا کوئی ہاتھ
رُلنے ہیں اب تو پاؤں میں تاج و کُلاہ تک - تھے، خاکِ پائے اہلِ محبت، مگر کبھی
سجدہ، بہ پیش تاج و لبادہ نہیں کیا
محاورات
- آنانکہ غنی تراند محتاج تراند
- اس کے در کے کتے (محتاج) ہیں
- بود نقرہ محتاج پالودگی
- بھاجی کی بھاجی۔ کیا دوسرے کی محتاجی
- تاج پر مونج کا بخیہ
- تاج سر پر قربان ہونا
- تاج سر سے گرنا
- تاکہ احمق باقی است اندر جہاں۔ مرد عاقل کے شود محتاج نان
- تن تاجا (تازہ) قلندر راجہ
- تن تاجار تو قلندر راجہ