تربت کے معنی
تربت کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تُرْ + بَت }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٨ء کو "چندر بدن و مہیار" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(اصطلاحی) قبر","لُغوی معنے مِٹّی"]
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : تُرْبَتیں[تُر + بَتیں (ی مجہول)]
- جمع غیر ندائی : تُرْبَتوں[تُر + بَتوں (و مجہول)]
تربت کے معنی
پینے آئی ہے تربت میں مجھے سختی گور لاٹ صاحب کی دہائی وقت ہے امداد کا (١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٥٠)
شہید تن میں مرے روح تازہ بخشی ہے عجب ہے تربت معصوم پنجیں کی باس (١٨٧٦ء، شہید، دیوان، ٨٦)
تربت کی مومن نے بنائی پئے زاری روضے کی شہ پاک کے تصویر اتاری (١٩١٢ء، شمیم، بیاض (ق)، ١)
تربت کے جملے اور مرکبات
تربت کی چادر
تربت english meaning
a gravetomba sepulchrea tombeveron any account
شاعری
- لئے پھرتی ہے بُلبل چونچ میں گل
شہیدِ ناز کی تربت کہاں ہے - تیری رحمت کہ چڑھانے کو مری تربت پر
پھول دامن میں بھرے خلد سے رضواں آیا - گرد اڑی عاشق کی تربت سے تو جھنجلا کر کہا
واہ سر چڑھنے لگی پاؤں کی ٹھکرائی ہوئی - بخل دیکھو تو میری تربت پر
ایک آنسو بھی وہ گرانہ سکا - خیال ذرہ ریگ بیاباں کوئی جات ہے
پھریں گے ترمرے تربت میں بھی مجنوں کی آنکھومیں - نرگس ترے بیمار کی تربت پہ نہیں ہیں
یہ دیکھنے کو تیرے نکل آئی ہیں آنکھیں - وہ دیوانہ تھا اب بھی میں پرستش گاہ مجنوں ہوں
چڑھا جاتا ہے تربت پر گریباں آستیں دامن - تربت میر پر ہیں اہل سخن
ہر طرف حرف ہے حکایت ہے - تربت کسی مومن نے بنائی پئے زاری
روضے کی شہ پاک کے تصویر اتاری - شمع روتی ہے بہت اسکو اٹھالے کوئی
بیٹھ جائے نہ کہیں کچی ہے تربت میری