تو کے معنی
تو کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تُو }
تفصیلات
iسنسکرت زبان میں تَوْ استعمال ہوتا تھا اور اردو میں ١٧٣٩ء میں کلیات سراج میں استعمال ہوا فارسی میں واحد حاضر کے لیے یہی استعمال ہوتا ہے ممکن ہے سنسکرت اور فارسی کے اثر سے تَوْ سے تُوْ بن گیا ہو۔, m["(ھ۔ ضمیر) تجھے","اس حالت میں","اس لئے","اس وقت","ایک بل کی رسی","بس (س تاوت)","جواب کے ساتھ زور دینے کے لئے","حرف ربط","لاپروا شخص","کم سے کم ہی"]
اسم
ضمیر شخصی ( واحد - حاضر )
اقسام اسم
- حالت : فاعلی
- جمع : تُم[تُم]
- مفعولی حالت : تُجھ[تُجھ]
- اضافی حالت : تُجھے[تُجھے]
- تخصیصی حالت : تیرا[تِے + را]
تو کے معنی
"تو نے اس پاپی کو لات کیوں نہیں ماری?" (١٩٣٥ء، گئودان، ٤٩٨)
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے (١٩١١ء، بانگ درا، ١٨٤)
جب خرام ناز کو تو اے پری پیکر اٹھا ہر قدم پر جائے گرد اک فتنہء محشر اٹھا
تو english meaning
beneficencecleanlinesselegancegoodnesshelplessneatnessor in addressing the DeitysleeveThenthou is used to imply contempt or familiarityto be extracted or taken outto be performedto be uttered or to be drawn outto come outto departto exceedto go forth or outto imply extreme reverenceto issueto set out or to over take
شاعری
- چلتے ہو تو چمن کو چلئے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم باد و باراں ہے - طوطا مینا تو ایک بابت ہے
پودنا پُھدکے تو قیامت ہے - دھو مُنھ ہزار پانی سے سو بار پڑھ درود
تب نام لے تو اس چمنستان کے پھول کا - پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا - مُنعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اُس رند کی بھی رات گُزر گئی جو غور تھا - ہم خاک میں مِلے تو مِلے لیکن اے سپہر
اُس شوخ کو بھی راہ پر لانا ضرور تھا - تھا وہ تو رشکِ حُور بہشتی ہمیں میں میر
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا - مرزبوم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اُس کی اُور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا - مری اب آنکھیں نہیں کُھلتیں ضعف سے ہمدم
نہ کہ کو نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا - بحر کم ظرف ہے بسان حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا
محاورات
- چار باسن ہوتے ہیں تو کھڑکتے ہیں
- یاروں کی تو فقط موچھیں ہی موچھیں ہیں
- (ایمان کی کہیں گے) ایمان ہے تو سب کچھ (سچ کہینگے)
- آ بلا گلے پر نہیں پڑتی تو بھی پڑ
- آ بلا گلے پڑ، نہیں پڑتی تو بھی پڑ
- آ بلا گلے پڑ‘نہیں پڑتی تو بھی پڑ
- آ بڑے باپ کی بیٹی ہے تو پنجہ کرلے
- آؤ تو جاؤ کہاں
- آئی تو ربائی نہیں فقط چارپائی۔ آئی تو روزی نہیں روزہ۔ آئی تو نوش نہیں فراموش
- آئیگا تو اپنے پاؤں سے جائیگا کس کے پاؤں سے