جس کے معنی
جس کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ جِس }
تفصیلات
iسنسکرت سے اردو میں آیا اصل لفظ |لِیسَیہْ| ہے۔ اردو میں |جس| استعمال کیا گیا۔ ١٥٦٤ء میں فیروز نے استعمال کیا۔, m["جوہر ذاتی","دیانت داری","ذاتی جوہر","عربی من و ما","فارسی ہر","نام وری","نیک نامی"]
اسم
ضمیر موصولہ ( واحد )
اقسام اسم
- حالت : فاعلی
- جمع : جِن[جِن]
- مفعولی حالت : جِسے[جِسے]
- اضافی حالت : جِس کا[جِس + کَا]
جس کے معنی
"فقیر اور ہتھیار جس پاس ہوں وہ نہ آئے" (١٨٦٩ء، غالب کا روزنامچہ غدر، ١٨)
جس کے جملے اور مرکبات
جس قدر
جس english meaning
the formativeor inflective base of the oblique casesof the sing of jo "who"famehastilyhurriedly instantaneouslyin a jiffylong-necked ewerquicklyrenownReputationscarchingseekerswiftlytalented personsthatwhatwhichwhoWhom
شاعری
- بحر کم ظرف ہے بسان حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تو جس کا - میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدّت تک وہ کاغذ نم رہا - جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا - یہ تمہاری ان دنوں دوستاں‘ مژہ جس کے غم میں ہے خوں چکاں
وہی آفتِ دل عاشقاں‘ کسو‘ وقت ہم سے بھی بار تھا - مدّت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک
جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے جلا دیا - ریگستان میں جاکے رہیں یا سنگستاں میں ہم جوگی
رات ہوئی جس جاگہ ہم کو ہم نے وہیں بسرام کیا - عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا - سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اٹھا لایا! - تفحص فائدہ ناصح تدارک تجھ سے کیا ہوگا
وہی پاوے گا میرا دردِ دل جس کا لگا ہوگا - بناں کی میر ستم وہ نگاہ ہے جس نے
خدا کے واسطے بھی خلق کا وبال نے
محاورات
- آنکھ نہیں جس کی ساکھ نہیں اس کی
- ا۔جس کمانا یا لینا
- اترا کبیرا سراے میں گٹھ کترے کے پاس۔ جس کرسی تس پاوسی تو کیوں ہوا اداس
- اس جاتگ سوں کرو نہ یاری جس کی ماتا ہو کلہاری
- اس طرح کانپتا ہے جس طرح قصائی سے گائے
- اس مانس سے ملو رے بھائی۔ جس کے دل میں بسے بھلائی
- اس نر کے بھی ایک دن پڑے گلے میں پھاند۔ جس نے چوری لوٹ پر لی کمریا باندھ
- اس کے آگے سیس نواؤ۔ بڈا بڑیرا جس کو پاؤ
- اشراف وہ جس کے پاس اشرفی
- اشراف وہ ہے جس کے پاس اشرفی ہے