جلی کے معنی
جلی کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ جَلی }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم صفت ہے اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٥٠٠ء میں "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بخلافِ خفی","حروف کے لئے","موٹا لکھا ہوا","وہ حرف جو صاف طور پر بولا جائے"]
جلی جَلی
اسم
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جلی کے معنی
"یہ ایک شرک جلی تھا جو ایک کھلی بت پرستی کی صورت میں . مسلط ہو گیا تھا۔" (١٩٤٥ء، صبح امید، ١٦١:١)
جو تم کو بھلاتا نہیں تم اوسکو نہ بھولو نت یاد کرو اوسکی خفی ہو کہ جلی ہو (١٨٥٨ء، تراب، کلیات، ١٦٠)
"سرورق پر جلی حرفوں میں چھپا ہوا تھا۔" (١٩٢٤ء، خونی راز، ١٤٤)
جلی کے مترادف
ظاہر, واضح
آشکارا, پرگھٹ, پرکار, پُرکار, روشن, صاف, ظاہر, عیاں, ممتاز, موٹا, نمایاں, واضح
جلی کے جملے اور مرکبات
جلی خط, جلی قلم
جلی english meaning
clearmanifestapparentevidentconspicuous; largeplain (hand-writing); distinctly-sounded (as a letter)(of hand-writting) plain and large(of type, etc) boldconspicuousPlainsalient
شاعری
- کیا جلی جاتی ہے خوبی ہی میں اپنی اے شمع
کہہ پتنگے کی بھی کچھ شام و سحر کرنے کی - اندھیرے ہنستے رہے روشنی کی قسمت پر
تمام رات جلی شمع کوربنیوں میں - خیال تک نہ کیا اہلِ انجمن نے کبھی
تمام رات جلی شمع انجمن کے لئے - اے فلک ہجر سے تو موت بھلی
آتش غم آہ جان جلی - لٹواکے گھر اس دشت مصیبت سے چلی ہوں
خالی ہوئی آغوش مری کوکھ جلی ہوں - سَوت کی آگ بجھے سوت کے بچوں سے جلی
ان جہنم کے شراروں کی شرارت نہ گئی - روز ازل سے آتے ہوتے جگر کباب
کیا آج کل سے عشق کی یارو جلی ہے آگ - کوئی ذکر جلی کرے ہے رکھ آس
کوئی سادتے روز پاس انفاس - اس بانسری کا آنکے جس جا ہوا بجن
کیا جلی پون نطیر پکھیروو کیا ہرن - تیرے لب یاقوت اپر خط خفی دیکھ اے نو خط ریحان
خطاط جہاں نسخ کیا خط جلی کوں کیوں ہے تو غباری
محاورات
- آدمی ہے کہ بجلی
- آگ جنواسا آگری چوتھا گاڑی دان۔ جیوں جیوں چمکے بیجلی دوں دوں تجے پران
- آنکھوں میں بجلی سی چمک جانا
- آنکھوں کے نیچے بجلی سی (برق) چمک جانا
- ادھ جلی گگری چھلکت جائے
- اگر بجلی بھی گرتی تو خبر نہ ہوتی
- بجلی پڑنا یا گرنا
- بجلی پڑے یا ٹوٹے یا گرے
- بجلی چمکنا
- بجلی چمکے مینہا برسے