خفا کے معنی
خفا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ خَفا }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٥١ء کو "کلیات مومن" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["معلوم نہ ہونا","(خَفِی ۔ معلوم نہ ہونا)","بگڑا ہوا","پردہ داري","چھپا ہونا","راز داري","غضب ناک","گلا گھونٹنا","ناخوش (کرنا ہونا کے ساتھ)","کبیدہ خاطر"]
خفی خَفا
اسم
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
خفا کے معنی
"اس کی ذات و صفات سب پردہ خفا میں گم رہتے ہیں۔" (١٩٧٠ء، برش قلم، ٥٤)
خفا english meaning
concealment; a secretangyfortunate (person)have a run of lucklucky guyoffended
شاعری
- چڑھی تیوری چمن میں میر آیا
گل حُسن آج شاید کچھ خفا تھا - نہ شکوہ شکایت نہ حرف و حکایت
کہو میر جی آج کیوں ہو خفا سے - ظرف دیکھو کہ خفا ہو کے مِرے ساتھ چلا
ورنہ وہ شخص وہیں راہ بدل سکتا تھا - کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لئے آ - ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیّاد خفا ہوتا ہے - نہ جانے قافلے والے خفا ہیں کیوں مجھ سے
میں صرف ایک مسافر ہوں‘ رہنما تو نہیں - عجیب شخص ہے ناراض ہوکے ہنستا ہے
میں چاہتا ہوں خفا ہو تو وہ خفا ہی لگے - وہی شخص جس پہ اپنے دل و جاں نثار کردوں
وہ اگر خفا نہیں ہے تو ضرور بدگماں ہے - تمام رات برستی ہے ریت پر شبنم
میں اپنے چاند سے جب بھی خفا سالگتا ہوں - تو جانتا نہیں مری چاہت عجیب ہے
مجھ کو منا رہا ہے، کبھی خود خفا بھی ہو
محاورات
- اخفا کرنا
- تقدیر کے لکھے کو تدبیر کیا کرے (گر حاکم خفا ہو تو وزیر کیا کرے)
- خدا خفا ہو تو پیدل چائے زیادہ خفا ہو تو سر پر بوجھا رکھائے جو خوش ہو مینہ برسائے زیادہ خوش ہو تو بیٹا دے
- دل جینے سے خفا ہونا
- دم خفا ہونا
- زندگی سے بتنگ (بیزار) ہونا۔ تنگ آنا یا ہونا۔ خفا ہونا یا (دل) سیر ہونا
- زندگی سے خفا ہونا
- صورت سے بیزار(خفا) ہونا یا چلنا یا نفرت ہونا
- طبیعت خفا کرنا
- طبیعت خفا ہونا