ربط کے معنی
ربط کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَبْط }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["(صرف و نحو) بناوٹ","(صرف) وہ لفظ جو فقروں یا لفظوں کو ملائے جیسے اور یا نا (بے)","بغیر ترکیب","بلا جوڑ","راہ سم","راہ و رسم","میل جول","میل ملاپ"]
ربط رَبْط
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : رَوابِط[رَوا + بِط]
ربط کے معنی
"اوپر نیچے میں ربط نہ تھا۔" (١٩٨٦ء، جوالہ مکھ، ٥٩)
"اور راہ میں ربط اور خلط نہ کریں کہ اکثر چور و عیار وضعدار لوگوں کی شکل بنا کر ملاقات کرتے ہیں۔" (١٨٤٥ء، مجمع الفنون (ترجمہ)، ١٠٧)
"چنانچہ ان سے ربط بڑھ گیا۔" (١٩٨٢ء، مرآۃ الغیب، ٢١٤)
"خیالات کے تانے بانے اور ان کے اظہار کا ربط ایک نہایت ہی پیچیدہ نفسیاتی معاملہ ہے۔" (١٩٨٦ء، فیضان فیض، ١٤٧)
"اگر یورپ میں کوئی قوم ہے جو بلحاظ فطری مذاق کے ایشیا سے کچھ ربط رکھ سکتی ہے تو وہ فرانسیسی قوم ہے۔" (١٩٢٢ء، نفش فرنگ، ٩٦)
"غیر مستقل الفاظ کو حروف کا نام دیا گیا ہے جن کی چار قسمیں ہیں ا۔ ربط ٢۔ عطف٣۔ تخصیص ٤۔ فجائیہ۔" (١٩٧١ء، جامع القواعد، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ٢٣٠)
ربط کے مترادف
آشنائی, پیوند, سلوک, بند, بندش
بند, بندش, پیار, ترکیب, تعلق, تناسب, جوڑنا, دوستی, رشتہ, علاقہ, لگاؤ, محبت, مشق, موافقت, مہارت, نسبت, واسطہ, یارانہ, یکسانیت
ربط کے جملے اور مرکبات
ربط باہمی, ربط و ترتیب, ربط باہم, ربط و ضبط, ربط زمانی, ربط و اختلاط
ربط english meaning
(iron.) supposedly authoritative statement, etca revealed bookconnectionfamiliarityintimacyknowledge
شاعری
- کس کو ہر دم ہے لہو رونے کا ہجراں میں دماغ
دل کو اک ربط سا ہے دیدۂ خونبار کے ساتھ - اب تجھ سے جو ربط ہے تو اتنا
تیرا ہی خدا‘ مِرا خدا ہے - تمہارے بعد خدا جانے کیا ہُوا دل کو
کسی سے ربط بڑھانے کا حوصلہ نہ ہُوا - میرا تمام فن ‘ مِری کاوش مِرا ریاض
اِک ناتمام گیت کے مصرعے ہیں جن کے بیچ
معنی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا میل
انجام جس کے طے نہ ہُوا ہو‘ اِک ایسا کھیل!
مری متاع‘ بس یہی جادُو ہے عشق کا
سیکھا ہے جس کو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ
لیکن یہ سحرِ عشق کا تحفہ عجیب ہے
کھلتا نہیں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ!
تقدیر کی عطا ہے یا کوئی سزا ہے یہ!
کس سے کہیں اے جاں کہ یہ قصہ عجیب ہے
کہنے کو یوں تو عشق کا جادو ہے میرے پاس
پر میرے دِل کے واسطے اتنا ہے اس کا بوجھ
سینے سے اِک پہاڑ سا‘ ہٹتا نہیں ہے یہ
لیکن اثر کے باب میں ہلکا ہے اس قدر
تجھ پر اگر چلاؤں تو چلتا نہیں ہے یہ!! - مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر!
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھوگئے
مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے - کالا جادُو
میرا تمام فن‘ مِری کاوش‘ مِرا ریاض
اِک ناتمام گیت کے مِصرعے ہیں جن کے بیچ
معنی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا میل
انجام جس کا طے نہ ہُوا ہو‘ اِک ایسا کھیل!
مری متاع‘ بس یہی جادُو ہے عشق کا
سیکھا ہے جس کو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ
لیکن یہ سحرِ عشق کا تحفہ عجیب ہے
کھلتا نہیں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ!
تقدیر کی عطا ہے یا کوئی سَزا ہے یہ!
کس سے کہیں اے جاں کہ یہ قصّہ عجیب ہے
کہنے کو یوں تو عشق کا جادُو ہے میرے پاس
پر میرے دل کے واسطے اتنا ہے اِس کا بوجھ
سینے سے اِک پہاڑ سا‘ ہٹتا نہیں ہے یہ
لیکن اَثر کے باب میں ہلکا ہے اِس قدر
تجھ پر اگر چلاؤں تو چلتا نہیں ہے یہ!! - نہ ربط ہے نہ معانی، کہیں تو کس سے کہیں!
ہم اپنے غم کی کہانی، کہیں تو کس سے کہیں! - چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے
اک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے - ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے
یہ جو فشارِ خاک ہے، اس میں کبھی گلاب تھے - گھی میں آئے میں نون پانی میں
سب سے ربط ان کو زندگانی میں
محاورات
- ربط و ضبط کو کام فرمانا