رسم کے معنی
رسم کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَسْم }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں اصل معنی اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["اونٹ کا تیز چلنا","پادری کو مقرر کرنا","دینا تنخواہ کا","مقرر کرنا دعوت کا","نشان چھوڑنا","نشان مٹا دینا بارش کا","نشان کرنا","نقش کرنا","کوئی چیز مقرر کرنا"]
رسم رَسْم
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : رَسْمیں[رَسْ + میں (ی مجہول)]
- جمع استثنائی : رَسُوم[رَسُوم]
- جمع غیر ندائی : رَسُومات[رَسُو + مات]
رسم کے معنی
"عید کے موقع پر عیدی دینا بھی ایک رسم ہے۔" (١٩٨٥ء، روشنی، ٣٧٥)
راس کل آئی تھی جیسے آپ کے ماں باپ کو یوں ہی رسمِ تاجپوشی ہو مبارک آپ کو (١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٤٣)
"نہ لکھنا کوئی غلطی نہیں، بلکہ ادب و تعظیم کی ایک رسم ہے۔" (١٩٨١ء، قطب نما، ٧٩)
جانے کیا وضع ہے اب رسم وفا کی اے دل وضع دیرینہ یہ اصرار کروں یا نہ کروں (١٩٥٢ء، دستِ صبا، ٥٨)
"اجی میں عرض کروں |رسم| شروع ہو جائے اور جو بھولے اس سے جس کی چاہے بولی بلوائی جائے۔" (١٩١٠ء، انقلاب لکھنؤ، ٢٧:١)
ہم نے مانا کہ رقیبوں سے تو کچھ اسم نہیں خط پہ خط روز یہ پھر کس کو رقم ہوئے ہیں (١٩٣٦ء، شعاع مہر، ناراین پرشاد ورما، ٧٨)
"جبکہ دایروں ہم مرکز کا رسم کرنا مدنظر ہو تو جائے مرکز پر ان کا سوراخ بذریعۂ نوکِ پرکار بہت بڑا نہ ہو جائے۔" (١٨٦٩ء، رسالہ ہفتم درباب پیمائش، ٢)
رسم کے مترادف
اصول, تقریب, چلن, رواج, قاعدہ, دستور, رہن, ڈھال[2], دھرم, نقش, آن[1]
آئین, اصول, انداز, پیروی, چلن, دستور, رَسَمَ, رواج, روش, رویہ, ریت, ضابطہ, طریقہ, طور, عادت, قاعدہ, لکھنا, ڈھنگ
رسم کے جملے اور مرکبات
رسم الخط, رسم حنا بندی, رسم جوڑہ, رسم کراؤ, رسم ملک, رسم و راہ, رسم و رواج, رسم المہر, رسم آرا, رسم بسم اللہ, رسم الطریق
رسم english meaning
marking outdelineatingdesigning; sketchoutlinemodelplan; way followed (in respect of doctrine and practices of religion)mannercustompracticeusagesettled mode; injunctionpreceptcanonlawbudgetimmovablemoderite
شاعری
- نامُرادی کی رسم میر سے ہے
طور یہ اس جوان سے نکلا! - رنگین گور کرنی شہیدوں کی رسم ہے
تو ہی ہماری خاک پہ خوں کے نشان کر - اُٹھائی ننگ سمجھ تم نے بات کے کہتے
وفا و مہر جو تھی رسم اک مدّت کی! - اُس ظلم پیشہ کی یہ رسم قدیم ہے گی
غیروں پہ مہربانی یاروں سے کینہ جوئی - آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ
اب کیسے لوگ آئے زمین آسماں کے بیچ - ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو
کہ سیر و گشت نہیں رسم اہل ماتم کی - اے رسم حیات تھک گیا ہوں
اب کتنے نفس کا فاصلہ ہے - بجھے چراغ پہ ہم دوستی پرکھتے ہیں
یہ رسم اپنے قبیلے میں ابتدا سے ہے!! - ترے بھی صحن میں گرنے لگے ہیں سنگ تو کیا
چلی تھی شہر میں یہ رسم بھی تو گھر سے ترے - تھی خطا ان کی‘ مگر جب آگئے وہ سامنے
جھک گئی مری ہی انکھیں رسم الفت دیکھئے
محاورات
- تاتوبمن میرسی من بخدا امیرسم
- رسم راہ اٹھ جانا
- رسم و راہ پڑجانا یا ہوجانا یا ہونا
- من زو وضع زمانہ می ترسم کو مبادا ازیں بتر گردو
- ہر ملکے ہر رسمے
- یار من نیکوست امارسم و آئینش بداست