رہ کے معنی
رہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ رَہ }
تفصیلات
iفارسی زبان سے اسم |راہ| کی تحفیفی شکل ہے یہ قیاس بھی کیا جاسکتا ہے کہ پہلوی زبان کے لفظ |راس| سے ماخوذ ہے یہ امکان بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔ کہ اوستائی زبان کے لفظ |روتھی| سے اخذ کیا گیا ہو لیکن اغلب امکان یہی ہے کہ فارسی سے اردو میں اصل شکل کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٧٠٧ء میں "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["رکش","رکھنا","دیکھئے: راہ","راہ کا مخفف","رہنا کا","مخففِ راہ","مخففِ راہ جیسے رہبر رہگزر وغیرہ میں","مخففِ راہ جیسے رہبر\u2018 رہگزر وغیرہ میں"]
راہ رَہ
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
رہ کے معنی
قیصر کو سونپ دوں گا میں سب پیدل اور سوار پہلے ہی راہ دکھا چکے چھ شرقی تاجدار (١٩٨٤ء، قہر عشق، ٢٦٧)
رہ کے جملے اور مرکبات
رہ نوردی, رہاسہا, رہگزر, رہ نما, رہ زن, رہ زنی, رہ گیر, رہ گزر, رہ رہ, رہ مستقیم, رہ نشین, رہ سپار, رہ سپر, رہ شناس, رہ طلب, رہ ظلمات, رہ مار, رہ راست
رہ english meaning
Roadwaypath(same as راہ N.F.*)a patha roada wayelectric lampmethod ; mannermode; fashionpassage ; means of access
شاعری
- رہ پیروی میں اُس کی کہ گامِ نحست میں
ظاہر اثر ہے مقصد دل کے وصول کا - سرمہ کیا ہے وضع پئے چشم اہل قدس
احمد کی رہ گزار کی خاک اور دھول کا - فلک نے آہ تری رہ ہیں ہم کو پیدا کر
برنگ سبزہ نو رستہ پائمال کیا - رہ گزر سیل حوادث کا ہے بے بُنیاد دہر
اس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کا - جنوں تھا نہ مجکو نہ چپ رہ سکا
کہ زنجیر ٹوٹی تو میں غل کیا - دل میں رہ دل میں کہ معمارِ قضا سے اب تک
ایسا مطبوع مکاں کوئی بنایا نہ گیا - اگرچہ رہ گئے تھے استخوان و پوست و لے
لگائی ایسی کہ تسمہ بھی پھر لگا نہ رہا - غافل نہ سوز عشق سے رہ پھر کباب ہے
گر لائحہ اس آگ کا ٹک دل کو جا لگا - اتنا کہا تھا فرش تری رہ کے ہم ہوں کاش
سو تو نے مار مار کے آکر بچھا دیا - شکیب میر جو کرتا تو وقر رہ جاتا
اُدھر کو جاکے عبث یہ حبیب خوار ہوا
محاورات
- (اپنا سا) منہ لے کر رہ جانا
- (اپنا سا) منہ لے کر رہ جانا
- (کی قسمت کا) ستارہ چمکنا
- (ہمیشہ) رہے نام اللہ کا
- آئی تھی آگ کو رہ گئی رات کو
- آئی نہ گئی چھو چھو گھر ہی میں رہی
- آئینہ ہر وقت سامنے رہنا
- آب آب کر مر گئے سرھانے دھرا رہا پانی
- آب آب کرکے مرگئے‘ سرہانے دھرا رہا پانی
- آبرو جاتی رہنا یا جانا