سلب کے معنی
سلب کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ سَلْب }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٠٩ء کو "دیوان شاہ کمال" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["لے لینا","جذب کرنا","چھین لینا","دور کرنا","لے لینا","نفی کرنا","نیست کرنا","کرلینا کرنا کے ساتھ"]
سلب سَلْب
اسم
اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
سلب کے معنی
"عقیدہ ہے کہ سلب نور کا نام ظلمت ہے جس کا مستقل وجود ثابت نہیں ہے۔" (١٩٣٩ء، آئین اکبری (ترجمہ)، ١٣٠:٣)
"مٹی میں خدا نے سلب عفونت کا خاصہ رکھا ہے۔" (١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض، ١٢٦:١)
"عرب کا ذریعۂ معاش عموماً قافلوں پر حملہ آوری اور سلب اموال اور رہزنی تھا۔" (١٩٣٢ء، سیرۃ النبی، ٣٣٩:٤)
"باوجود سلب اختیارات اور افلاس کے شہزادوں کا . رکھ رکھاؤ دیدنی ہے۔" (١٩٢٤ء، اودھ پنچ، لکھنو،٩، ٤:٤٢)
"منہیات کے سلب و نفی سے اس کی ترکیب و تقویم ہوتی ہے۔" (١٩٥٨ء، انتخاب الہلال، ١٨٥)
"سلب انتزاع نسبت کا نام ہے تو محتاج ہونے کی نسبت خدا سے انتزاع یعنی دور کر دے۔" (١٩٢٣ء، المنطق، ٤)
سلب کے مترادف
انکار, نفی
اخذ, اخراج, استحصال, انکار, جذب, ربودگی, سَلَبَ, لوٹ, لیجانا, مٹاؤ, نفی
سلب english meaning
seizing by force; deprivation; negationdenial; spoilplunder(logic) negative argumentdivestingseizuretaking away
شاعری
- رٹی شکل حماری تو نے اقلیدس میں اس درجہ
ہوئے جاتے ہیں تجھ سے سلب خاصیات انسانی
محاورات
- بیساکھ جیٹھ دتیا بام اتراونچو چاند۔ یہ پہنچے کرجانئے پرتھی مینہ سلبھ
- سلب ہوجانا یا ہونا
- طاقت سلب ہونا