سوز کے معنی

سوز کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ سوز (و مجہول) }

تفصیلات

iفارسی زبان سے اصل صورت اور مفہوم کے ساتھ اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["جلنا","جلن پیدا کرنے والا","جلنے والا","مرثیہ خوانی کی ایک طرز","مرکبات کے اخیر میں جیسے دل سوز، جگر سوز","وہ اشعار جو مرثیہ خواں ایک لے کے ساتھ پڑھتے ہیں"]

اسم

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )

سوز کے معنی

١ - تپش، جلن، تپن، جلنا۔

"ایک شخص قوم کے سوز میں انگاروں پر لوٹ رہا ہے۔" (١٩٣٨ء، حالاتِ سرسید، ٩٠)

٢ - دُکھ، رنج و غم، رِقت کی کیفیت، تاثرِ غم، آزردگی۔

"سائینٹفک تحریروں نے اُن کے اسٹائل کو زندگی دی، ان کی تحریریں . نئے رجحانات اور نئے نظریات کی حامل ہیں جن میں بلا کا سوز اور کشش ہے۔" (١٩٨٨ء، جنگ، کراچی، ١٥، اپریل، ١٤)

٣ - درد ناک لہجہ، پُر درد انداز، غمناک لحن۔

"پہلے مرثیے سوز میں پڑھے جاتے تھے پھر تحت لفظ بھی پڑھنے لگے۔" (١٨٨٠ء، آبِ حیات، ٣٨٠)

٤ - عشق

 شمع سحر یہ کہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز غمکدۂ نمود میں شرطِ دوام اور ہے (١٩٠٨ء، بانگِ درا، ١١٩)

٥ - شہدائے کربلا یا خاندانِ رسالت کے حال پر مشتمل قطعہ، رباعی یا مسدس کا ایک بند جو مجلس میں سلام اور مرثیے سے پہلے پڑھا جائے۔"

"وہ حیدر آباد آتے تو اپنے مربی اور قدر دان مولودی سید علی حسن صاحب کو کبھی کبھی سوز سناتے تھے۔" (١٩٣٥ء، چند ہمعصر، ٢٢٠)

٦ - مجلس میں منبر کی ذاکری سے پہلے فرش یا تخت پر بیٹھ کر سُر اور لے کے ساتھ فضائل یا مصائب کے اشعار پڑھنے کا طرز یا انداز۔

"کربلا سے واپس آنے کے بعد انہوں نے گانا بھی چھوڑ دیا صرف سوز پڑھتے تھے۔" (١٩٠٠ء، ذاتِ شریف، ٧٢)

سوز کے مترادف

دکھ, جلن, سوزش

احساس, اذیت, التہاب, تپش, تپن, تکلیف, جذبہ, جلن, جوش, حرقہ, درد, دُکھ, رنج, سوختگی, سوختن, سوزش, غم, گداز, کرب, کلفت

سوز کے جملے اور مرکبات

سوز دماغ, سوزناک, سوز نہاں, سوز و ساز, سوز و گداز, سوزیقیں, سوز حیات, سوز پنہاں, سوز جگر, سوز تمام, سوز خواں, سوز دروں, سوز آرزو, سوز نہانی

سوز english meaning

burning; heatinflammation; ardourpassion; affection; heart burningvexation.rending

شاعری

  • دل خستہ جو لہو ہوگیا‘ تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک
    کبھو‘ سوز سینہ سے داغ تھا‘ کبھو درد و غم سے فگار تھا
  • ہجر کی ایک آن میں دل کا ٹھکانا ہوگیا
    ہر زماں ملتے تھے باہم سوز مانا ہوگیا
  • غافل نہ سوز عشق سے رہ پھر کباب ہے
    گر لائحہ اس آگ کا ٹک دل کو جا لگا
  • سوز وروں سے مجھ پر ستم برملا ہوا
    ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا بجا ہوا
  • آتش ہے سوز سینہ ہمارا مگر کہ میر
    نامے سے عاشقوں کے کبوتر کباب ہے
  • یہ اتصال اشک جگر سوز کا کہاں
    روتی ہے یوں تو شمع بھی کم کم تمام شب
  • کیا عشق خانہ سوز کے دل میں چھپی ہے آگ
    اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ
  • شمع خود آگ میں جلتی ہے اسی سوز کے ساتھ
    کھیلنا کیا کوئی آسان ہے پروانے سے
  • ہم جلوہ البر سمن فام
    جاں سوز نجوم آب اندام
  • سنے دل سوز نغمے ساز خوش آہنگ سے گتونے
    بجھائی تشنہ کامی آب آتش رنگ سے تونے

محاورات

  • دماغ سوزی کرنا
  • رند عالم سوز ‌را ‌بامصلحت چہ کار
  • عشق اول در دل معشوق پیدا میشود،تانہ سوزد شمع کے پروانہ شیدا میشود
  • مرا دردقیست اندر دل اگر گویم زبان سوزو و گردم ورکشم تسم کہ مغز استخوان سوزو

Related Words of "سوز":