شعار کے معنی
شعار کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شِعار }
تفصیلات
iعربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٧٨ء کو "کلیاتِ غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["جاننا","بد شعار","بدن سے لگا ہوا کپڑا","مذہبی رسم","مرکبات کے آخر میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے ستم شعار","وہ لفظ جس سے فوج والے ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں"]
شعر شِعار
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
اقسام اسم
- جمع : شِعائِر[شِعا + اِر]
شعار کے معنی
"یہ مجسمہ اس ہوٹل کے سامنے ہے اس لیے یہ اس ہوٹل کا شعار یعنی مارکہ ہے" (١٩٢٠ء، برید فرنگ، ٩١)
"گرم کپڑوں کے نیچے شعار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں" (١٩٣٤ء، منشورات کیفی، ٣٦)
"کسی کے ظاہر کو شعار اسلام کے خلاف دیکھ کر اس کو کافر سمجھنا یا کافر کہہ دینا بڑی خطرناک بات ہے" (١٩٠٦ء، الحقوق والفرائض، ٢٦:١)
شعار اپنا بنا لے اس کو خوشحالی صداقت میں نہیں کوئی تباہی (١٩٨٠ء، خوش حال خاں خٹک، ١١٩)
"جب کلمہ توحید تمام دنیا میں ایک الگ اسلامی شعار کا مالک ہے تو اس برادری میں سب شامل ہیں" (١٩٧٧ء، اقبال کی صحبت میں، ١٨٧)
شعار کے مترادف
چلن
اسلوب, اشارہ, انداز, بنیان, چال, چلن, دستور, روش, ریت, شَعَرَ, شیوہ, طرح, طریقہ, طور, عادت, علامت, نشان, وضع, ڈھنگ
شعار کے جملے اور مرکبات
شعار مذہبی
شعار english meaning
marksignalsign; habitcustom; methodmanner; an under-garment(see under نچوڑنا V.T.*)
شاعری
- گو غزل ہوگئی قصیدہ سی
عاشقوں کا ہے طول حرف شعار - واں جہاں خاک کے برابر ہے
قدر ہفت آسمانِ ظلم شعار - اپنا شعار پوچھو تو مہرباں وفا ہے
پر اُس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے - خدا گواہ شکایت مرا شعار نہیں
ترے نثار تری ہر خوشی مجھے منظور - مزا تو جب ہے کوئی مجھ سا ڈھونڈ کر لاؤ
خطا معاف‘ اگر میں وفا شعار نہیں - ہر بوالہوس نے حُسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂِ اہلِ نظر گئی - کیوں ہاتھ باندھے بیٹھے رہو مجرموں کی مثل
دستِ ستم شعار سے تلوار چھین لو - بتایا شعار سلوک وطریقت
سکھائے مریدوں کو آداب صحبت - یہ کس ستم شعار کی حسرت ہوئی ہے خاک
آلودہ ہو کے پاؤں پھٹے کیوں غبار سے - بیٹے کی باپ سے بنی خانم بگڑ نہ جائے
ڈاکلے بہو پہ آنکھ موا بد شعار باپ