شے کے معنی
شے کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ شَے (ی لین) }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "بندہ نواز (دکنی ادب کی تاریخ)" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["چاہنا","خواہش کرنا","نفیس یا نایاب چیز"]
شیء شَے
اسم
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
اقسام اسم
- جمع : اَشْیا[اَش + یا]
شے کے معنی
"اسے کسی شے کی ہوس نہ رہی تھی۔" (١٩٨٨ء، نشیب، ٣٦٦)
میں بھی اِک شے ہوں مرے مشروبِ رندی پہ نہ جا تجھ کو زاہد نہیں معلوم حقیقت میری (١٨٩٩ء، دیوانِ ظہیر دہلوی، ٢٥١:١)
"موجودِ حقیقی اور ہستِ حقیقی اور ذاتِ بحت شے کے معنی ہیں حقیقیۃً اور افراد اور تعینات عالم کو مجازاً شے کہتے ہیں۔" (١٩٢١ء، مصباح التعرف، ١٥٥)
شے کے مترادف
چیز, سامان, واقعہ
اثاثہ, افزونی, برکت, بست, چاہنا, چیز, دستُو, زیادتی, سامان, شَیَاَ, معاملہ, واقعہ
شے کے جملے اور مرکبات
شے دیگر
شے english meaning
Thing
شاعری
- رہتا نہیں ہے آنکھ سے آنسو ترے لیے
دیکھی جو اچھی شے تو یہ لڑکا مچل پڑا - دل بھی کیسی شے ہے دیکھو پھر خالی کا خالی
گرچہ اس میں ڈآلے میں نے آنکھیں بھر بھر خواب - دھڑکتےدل کی صدا بھی عجیب شے ہے ظفر
کہ جیسے کوئی مرے ساتھ ساتھ چلتا ہو - طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شاد
ہمیں تو آپ نہیں اپنا مدّعا معلوم - ہر چیز پر بہار‘ ہر اک شے پہ حُسن تھا
دنیا جوان تھی مرے عہدِ شباب میں - جس نے تجھے غم سہنے کی توفیق نہیں دی
وہ اور کوئی شے ہے محبت تو نہیں ہے - نشیمن کے وہ بے ترتیب تنکے ہائے کیا شے تھے
قفس میں آج تک خوابِ گلستاں دیکھ لیتا ہوں - یہ کس کو دیکھ کر دیکھا ہے میں نے بزمِ ہستی کو
کہ جو شے ہے نگاہوں کو حسیں معلوم ہوتی ہے - ہَوا خلاف تھی موسم کا ذائقہ تھا تلخ
ہر ایک شے کو مگر خوش گوار تَونے کیا - ایک عجیب خیال
کسی پرواز کے دوران اگر
اِک نظر ڈالیں جو
کھڑکی سے اُدھر
دُور‘ تاحّدِ نگہ
ایک بے کیف سی یکسانی میں ڈوبے منظر
محوِ افسوس نظر آتے ہیں
کسی انجان سے نشے میں بھٹکتے بادل
اور پھر اُن کے تلے
بحر و بر‘ کوہ و بیابان و دَمن
جیسے مدہوش نظر آتے ہیں
شہر خاموش نظر آتے ہیں
شہر خاموش نطر آتے ہیں لیکن ان میں
سینکڑوں سڑکیں ہزاروں ہی گلی کُوچے ہیں
اور مکاں… ایک دُوجے سے جُڑے
ایسے محتاط کھڑے ہیں جیسے
ہاتھ چھُوٹا تو ابھی‘
گرکے ٹوٹیں گے‘ بکھر جائیں گے
اِس قدر دُور سے کُچھ کہنا ذرا مشکل ہے
اِن مکانوں میں‘ گلی کُوچوں‘ گُزر گاہوں میں
یہ جو کُچھ کیڑے مکوڑے سے نظر آتے ہیں
کہیں اِنساں تو نہیں!
وہی انساں… جو تکبّر کے صنم خانے میں
ناخُدا اور خُدا ‘ آپ ہی بن جاتا ہے
پاؤں اِس طرح سرفرشِ زمیں رکھتا ہے
وُہی خالق ہے ہر اک شے کا‘ وُہی داتا ہے
اِس سے اب کون کہے!
اے سرِخاکِ فنا رینگنے والے کیڑے!
یہ جو مَستی ہے تجھے ہستی کی
اپنی دہشت سے بھری بستی کی
اس بلندی سے کبھی آن کے دیکھے تو کھُلے
کیسی حالت ہے تری پستی کی!
اور پھر اُس کی طرف دیکھ کہ جو
ہے زمانوں کا‘ جہانوں کا خُدا
خالقِ اَرض و سما‘ حّئی و صمد
جس کے دروازے پہ رہتے ہیں کھڑے
مثلِ دربان‘ اَزل اور اَبد
جس کی رفعت کا ٹھکانہ ہے نہ حدّ
اور پھر سوچ اگر
وہ کبھی دیکھے تجھے!!!
محاورات
- آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور چیز۔ لاکھ طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
- اللہ بخشے
- ایسے سبز باغ دکھائے کہ پری شیشے میں اتر آئی
- ایک فرہاد سو تیشے ایک جان سو اندیشے
- ایک لکڑ یا بانسے کی کانی آنکھ تماشے کی
- ایک لکڑیا بانسے کی کانی آنکھ تماشے کی
- بوڑھے منہ مہاسے (لوگ چلے تماشے)
- بھنگ تو ایسی پیجئے جیسے کنج گلی کی کیچ ۔ گھر کے جانے مرگئے اور آپ نشے کے بیچ
- پری شیشے میں اتارنا
- پری شیشے میں اترنا