عبث کے معنی
عبث کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ عَبَث }
تفصیلات
iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور صفت اور متعلق فعل مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بے سبب","بے فائدہ","بے کار","بے ہودہ","دل لگی","لہو و لعب","منسوب بہ عباس","کھیل کود","ہنسی مذاق"]
عبت عَبَث
اسم
صفت ذاتی ( واحد )
عبث کے معنی
"جنوبی ہند کے مرثیے جذباتی سرمائے سے مالا مال ہیں اور اس صورت میں ان میں فن کی تلاش عبث ہے۔" (١٩٨٧ء، صحیفہ، لاہور، اپریل تا جون، ٧٢)
آپ تو ہندی کی جانب سے پریشان ہیں عبث لے دیا ہو گا کسی نے دشمنی سے اس کا نام (١٩٨٢ء، ط ظ، ٢٣)
عبث کے مترادف
لغو
بازی, بلاوجہ, بیفائدہ, بیوجہ, بیکار, بیہودہ, چُہل, عَبَثَ, فضول, لاحاصل, لایعنی, لعب, لغو, ناجائز, ناحق, ناواجب, نکما, کھیل
عبث english meaning
Triflingfrivolous; vainidleabsurdbootlessin vainmiddle coursemoderationof no availprofitlessto no purposetriflingunavailinguselessvain
شاعری
- ناحق ہم مجبُوروں پر یہ تُہمت ہے مُختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا - یہ نشانِ عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا - تکلیف دردِ دل کی عبث نے لی!
دردِ سُخن نے میرے سبھوں کو رُلا دیا - ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا - مجنوں کو عبث دعوئے وحشت ہے مجھی سے
جس دن کہ جنوں مجھ کو ہوا تھا وہ کہاں تھا - شکیب میر جو کرتا تو وقر رہ جاتا
اُدھر کو جاکے عبث یہ حبیب خوار ہوا - شکوہ عبث ہے میر کہ کڑھتے ہیں سارے دن
یا دل کا حال رہتا ہے درہم تمام شب - عبث پوچھے ہے مجھ سے میر میں صحرا کو جاتا ہوں
خرابی ہے یہ دل رکھا ہے جو تونے تو بس بہتر - ضد دلاتا ہے عبث آنکھیں چُھپا کر مجھ کو یار
سوزِ دل سے جسمِ خاکی توتیا ہوجائے گا - کچھ مرے آنسووں کی قدر نہ
کی اتری ان موتیوں کی آب عبث