غزل کے معنی
غزل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ غَزَل }شاعری کی صنف
تفصیلات
١ - لغوی معنی عورتوں کے ساتھ بات چیت اور عشق بازی (شاعری) وہ صنف سخن جس میں عموماً حسن و عشق، وصال و فراق، شراب و شباب، یاس و حرماں اور تصوف و معرفت وغیرہ کی باتیں کہی جائیں لیکن غزل اس کے حدبندی کی پابند نہیں رہی، اب اس میں ہر قسم کے موضوعات و مسائل نظم کیے جاتے ہیں غزل ہر بحر میں کہی جاتی ہے، اس کا ہر شعر عموماً جداگانہ مضمون کا حامل ہوتا ہے، اس کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے، جس کے دونوں مصرعے ہم ردیف اور ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ باقی اشعار کے مصرع ثانی میں قافیہ ہوتا ہے۔ آخری شعر جس میں شاعر کا تخلص ہو مقطع کہلاتا ہے سب سے عمدہ شعر کو شاہ بیت کہتے ہیں۔, m["عاشقانہ نظم","غَزَلَ۔ عورتوں سے محبت کی باتیں کرنا","نغمئہ محبت","وہ اشعار جن میں حسن و عشق اور ان کے متعلقات کا ذکر ہو یہ ہر بحر کہی جاتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعوں کا قافیہ ہوتا ہے۔ اسے مطلع کہتے ہیں۔ سب سے اچھے شعر کو شاہ بیت کہتے ہیں"],
اسم
اسم نکرہ, اسم
اقسام اسم
- لڑکی
غزل کے معنی
غزل کے جملے اور مرکبات
غزل گوئی, غزل مسلسل, غزل نگار, غزل خواں, غزل خوانی, غزل در غزل, غزل سرائی, غزل سنج, غزل گو
غزل english meaning
an amatory poeman odeamatory verseodeGhazal
شاعری
- نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا - زمینِ غزل مِلک سی ہوگئی
یہ قطعہ تصّرف میں بالکل کیا - جادو کی پڑی پرچۂ ابیات تھا اس کا
منہ تکتے غزل پڑھتے عجب سحر بیاں تھا - گو غزل ہوگئی قصیدہ سی
عاشقوں کا ہے طول حرف شعار - کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر
یہ قافیہ پیمائی ،ذراکرکے تو دیکھو - جو ہوسکے تو کبھی میر جی سے یہ پوچھیں
یہ جان اُن کی غزل پر نثار کرتے ہوئے - مقتل میں بھی اہلِ جنوں ہیں کیسے غزل خواں، دیکھو تو!
ہم پہ پتھر پھینکنے والو، اپنے گریباں، دیکھو تو! - شمعِ غزل کی لَو بن جائے، ایسا مصرعہ ہو تو کہو
اک اک حرف میں سوچ کی خوشبو، دل کا اجالا ہو تو کہو - یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئ شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو - کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے رنب سے بندھا ہوا
وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا
محاورات
- غزل پھیکی پڑ جانا یا ٹھنڈی ہونا
- غزل سرسبز ہونا
- غزل سست ہونا
- غزل سیر کہنا