فاعل کے معنی

فاعل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ فا + عِل }

تفصیلات

iعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق کلمہ ہے۔ اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["کام کرنا","(اسم) وہ اسم جس سے فعل سر زد ہو","جس کے متعلق سر زد ہوا سے مفعول کہتے ہیں جیسے مسعود نے کھانا کھایا۔ مسعود فاعل کھانا مفعول۔ فعل مجہول کے ساتھ نے آتا ہے","غلام کرنے والا","فعل کرنے والا","واردات کرنے والا","کام کرنیوالا","کسی کام کا کرنے والا"]

فعل فاعِل

اسم

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • جمع : فاعِلِین[فا + عِلِین]
  • جمع غیر ندائی : فاعِلوں[فا + عِلوں (و مجہول)]

فاعل کے معنی

١ - کسی کام کرنے والا، جس سے کوئی سرزد ہو۔

"بالآخر ایک تیسرا مذہب ایجاد ہوا یعنی خدا بھی فاعلِ مختار ہے اور انسان بھی۔" (١٩٠٤ء، مقالاتِ شبلی، ٤٩:١)

٢ - ایجاد کرنے والا، موجد۔

 پھراتا سو آپ حکم میں دل تہیں حقیقت میں فعال و فاعل نہیں (١٦٧٥ء، گلشن عشق، ٧)

٣ - [ قواعد ] وہ اسم جس سے فعل صادر ہو۔

"اردو زبان کے قواعد کے مطابق جملے میں فاعل سب سے پہلے مفعول اگر ہو تو اس کے بعد۔" (١٩٨٥ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ٤٤)

٤ - [ کنایۃ ] لوطی، اغلام باز (عموماً مفعول کے ساتھ)۔

"جسکو قومِ لوط کا عمل کرتے پاؤ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر ڈالو۔" (١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٧٤:٢)

فاعل کے مترادف

عامل, کارندہ, مرتکب

عام, عامل, فَعَلَ, مجرم, مرتکب, کارندہ, کارکن

فاعل کے جملے اور مرکبات

فاعل اول, فاعل حقیقی, فاعل مختار, فاعل و مفعول

فاعل english meaning

makingdoingoperating

شاعری

  • میکدہ میں گر سراسر فعل نامعقول ہے
    مدرسہ دیکھا تو وہاں بھی فاعل و مفعول ہے

Related Words of "فاعل":

حالت فاعلی

"جو کے ساتھ حالت فاعلی میں علامت فاعل "نے" نہیں آتی۔" (١٩٧٣ء، جامع القواعد (حصۂ نحو)، ٧٢)

تفاعل

"ہم انسان کو . عناصر میں سے ایک عناصر سمجھیں اور اسے خارجی دینا کا ایک تفاعل قرار دیکر اس کا مطالعہ کریں۔" (١٩٥٩ء، مقدر انسانی، ٤٣)

دفاعی توافق

"دفاعغی توافقات، دعا تخموں اور برہنہ تخموں کے درمیان بنیادی امتیاز (یعنی مادگیں کی تکوین) بلاشبہ ایک توافق کے طور پر پیدا ہوا جس سے بیض دان اور بیج کی بہتر حفاظت حاصل ہوگئی۔" (١٩٤٣ء، مبادی نباتیات (ترجمہ)، ٦٧٧:٢)

دفاعی حصار

"مشرقی پاکستان کے دفاع کے چار طریقے تھے اول. جتنے وسائل دستیاب ہیں انہیں استعمال میں لا کر ڈھاکہ کے گرد دفاعی حصار بنا دیا جائے جغرافیائی لحاظ سے یہ دفاعی حصار تین بڑے دریاؤں (جمنا، برہم پتر اور میگھنا) کے کناروں پر استوار کیا جاسکتا تھا۔" (١٩٧٧ء، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ١٣٤)

دفاعی حکمت عملی

"اسکوائر کٹ انتہائی دلکش، دفاعی حکمت عملی کے دوران ان کی بیٹنگ بے نظیر۔" (١٩٨٥ء، کرکٹ، ٢١٧)