لگ کے معنی
لگ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ لَگ }
تفصیلات
iپراکرت زبان سے ماخوذ ہے۔ اردو زبان میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔ ١٢٦٥ء کو "تاریخ ادب اردو" کے حوالے سے بابا فرید گنج شکر کے ہاں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔, m["ملنا","(امر) لگنا کا","(س ۔ لگ ۔ چمٹنا ۔ ملنا)"]
اسم
حرف جار
لگ کے معنی
حویلی اوس کی لوہے کی ہے اے یار مگر یورپ کے لگ توٹی ہے دیوار (١٨٤٠ء، لوائے غیب، ٨)
لگ کے جملے اور مرکبات
لگ بھگ, لگ کر, لگ لپٹ کر
شاعری
- ہزاروں کی یاں لگ گئیں چھت سے آنکھیں
تو اے ماہ کِس شب لبِ بام ہوگا! - تاب کہاں ہے تجھ سے کہیئے لگ کے گلے سے سوجاؤ
مانو نہ مانو‘ بیٹھو نہ بیٹھو‘ کھڑے کھڑے ٹُک ہوجاؤ - لگ جاوے دل کہیں تو اُسے جی میں اپنے رکھ
رکھتا نہیں شگون کچھ اظہار عشق کا - اب گھٹتے گھٹتے جان میں طاقت نہیں رہی
ٹک لگ چلی صبا کہ دیا سا بڑھا دیا - طے دن گئے کہ اشک سے چھڑکاؤ سا کیا
اب رونے لگ گئے ہیں تو تالاب سا ہوا - ہر سحر لگ چلی تو ہے تُو نسیم
اے سیہ مست ناز ٹک ہشیار - بھرا ہے دل مِرا جام لبالب کی طرح ساقی
گلے لگ خوب روؤں میں جو مینائے شراب آوئے - گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گل سے میر
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے - اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کُھلے گی زبان جب کی بات! - اُٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میر
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت
محاورات
- (بات) دل کو لگنا
- آ بلا گلے (پڑ) لگ۔ آ بلا مجھے مار
- آؤ بوا لڑیں لڑے ہماری بلا (بلا لگے تجھے)
- آؤ مہرباں بڑی (دیر لگائی) راہ دکھائی
- آئی (آئیں) نہ گئی (گئیں) کولے لگ گابھن ہوئی (ہوئیں)
- آبرو میں بٹا لگ جانا یا لگنا
- آبرو میں بٹا لگانا
- آبرو میں بٹا لگنا
- آبرو میں دھبہ لگ جانا
- آپ بھولے تو استاد کو لگائے