کوہ کے معنی
کوہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ کوہ(واؤ مجہول) }
تفصیلات
iفارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "اردو ادب" کے حوالے سے نوسرہار میں مستعمل ملتا ہے۔, m["وہ سنگلاخ قطعہ جو سطح زمین سے بلند ہو","وہ سنگلاخ قلعہ جو سطح زمین سے بلند ہو"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
کوہ کے معنی
"اسے دور دامن کوہ میں ایک پالکی آتی ہوئی دکھائی دی۔" (١٩٨٢ء، آتش چنار، ٧٣٠)
اے کوہ الم ٹوٹ پڑ احباب کے دل پر اے آرۂ حسرت سرِ اغیار پہ چل جا (١٩٣١ء، بہارستان، ٨٠٣)
کوہ کے مترادف
جبل, پربت
اچل, اَچل, پربت, پہاڑ, جبل, غر, گِر, گِری, متحمل, کرودہ, کون
کوہ کے جملے اور مرکبات
کوہ نوردی, کوہ کنی, کوہ شکن, کوہ صفا, کوہ طور, کوہ قاف, کوہ کار, کوہ ستان, کوہ ستم, کوہ سریں, کوہ سعیر, کوہ سیلان, کوہ سیہ, کوہ جگر, کوہ جودی, کوہ درکوہ, کوہ رحمت, کوہ رواں, کوہ سار, کوہ برفانی, کوہ بے ستون, کوہ پشت, کوہ پیکر, کوہ پیما, کوہ پیمائی, کوہ الوند, کوہ آتش فشاں, کوہ آدم, کوہ اخضر, کوہ اضم, کوہ البرز, کوہ کن, کوہ کندنی, کوہ گراں, کوہ ندا, کوہ نور, کوہ نورد, کوہ و دمن, کوہ وقار, کوہ شگاف
کوہ english meaning
a mountainhillhillockmountain
شاعری
- کس پہاڑ میں جوں کوہ کن سراب ماریں
خیال ہم کو بھی ہے اپنی بخت آزمائی کا - میں اور قیس و کوہ کن اب جو زباں پہ ہیں
تارے گئے ہیں سب یہ گنہگار ایک طرح - مجنون و کوہ کن نہ تلف عشق میں ہوئے
مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں اس خانداں کے لوگ - ہم کو دیوانگی شہروں ہی میں خوش آتی ہے
دشت میں قیس رہو کوہ میں فرہاد رہو - کوہکن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے
عشق میں ہم کو میر نہایت پاس عزت داراں ہے - مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں
تھا جن سے لطفِ زندگی سے یار مرگئے - عشق نے ڈالی تھی جب قصر محبّت کی بنا
لکھ دیا تھا کوہ کن بھی‘ نام اک مزدور کا - لایا ہوں یوں بچا کے حوادث سے زیست کو
لاتے ہیں جیسے کوہ سے چشمہ نکال کر - ایک عجیب خیال
کسی پرواز کے دوران اگر
اِک نظر ڈالیں جو
کھڑکی سے اُدھر
دُور‘ تاحّدِ نگہ
ایک بے کیف سی یکسانی میں ڈوبے منظر
محوِ افسوس نظر آتے ہیں
کسی انجان سے نشے میں بھٹکتے بادل
اور پھر اُن کے تلے
بحر و بر‘ کوہ و بیابان و دَمن
جیسے مدہوش نظر آتے ہیں
شہر خاموش نظر آتے ہیں
شہر خاموش نطر آتے ہیں لیکن ان میں
سینکڑوں سڑکیں ہزاروں ہی گلی کُوچے ہیں
اور مکاں… ایک دُوجے سے جُڑے
ایسے محتاط کھڑے ہیں جیسے
ہاتھ چھُوٹا تو ابھی‘
گرکے ٹوٹیں گے‘ بکھر جائیں گے
اِس قدر دُور سے کُچھ کہنا ذرا مشکل ہے
اِن مکانوں میں‘ گلی کُوچوں‘ گُزر گاہوں میں
یہ جو کُچھ کیڑے مکوڑے سے نظر آتے ہیں
کہیں اِنساں تو نہیں!
وہی انساں… جو تکبّر کے صنم خانے میں
ناخُدا اور خُدا ‘ آپ ہی بن جاتا ہے
پاؤں اِس طرح سرفرشِ زمیں رکھتا ہے
وُہی خالق ہے ہر اک شے کا‘ وُہی داتا ہے
اِس سے اب کون کہے!
اے سرِخاکِ فنا رینگنے والے کیڑے!
یہ جو مَستی ہے تجھے ہستی کی
اپنی دہشت سے بھری بستی کی
اس بلندی سے کبھی آن کے دیکھے تو کھُلے
کیسی حالت ہے تری پستی کی!
اور پھر اُس کی طرف دیکھ کہ جو
ہے زمانوں کا‘ جہانوں کا خُدا
خالقِ اَرض و سما‘ حّئی و صمد
جس کے دروازے پہ رہتے ہیں کھڑے
مثلِ دربان‘ اَزل اور اَبد
جس کی رفعت کا ٹھکانہ ہے نہ حدّ
اور پھر سوچ اگر
وہ کبھی دیکھے تجھے!!! - کلر لگا دیوار کوں کہہ جمفراب کیا کیجئیے
خطرہ پڑا آثار کوہ کہہ جمفر اب کیا کیجئے
محاورات
- آپ کا شکوہ میرے سر آنکھوں پر
- اگر کوہ ٹلے تو ٹلے نہ ٹلے فقیر
- جتنا مڑوے میں آویلا اتنا کوہبر میں نہ آوے
- خرس در کوہ بوعلی سینا ست
- سرسوں پھولے پھاگ میں اور سانجھی پھولے سانجھ کوہی نہ پھولے نا پھلے جو تریا ہو بانجھ
- شکر شکوہ رہ جانا
- کوہ کندن و کاہ بر آوردن
- کوہ آفت گرنا
- کوہ الم (یا غم) ٹوٹنا
- کوہ الم ٹوٹ پڑنا یا ٹوٹنا