کیسا کے معنی

کیسا کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل

{ کَے (ی لین) + سا }

تفصیلات

iپراکرت زبان سے ماخوذ صفت ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٠٥ء کو "نظم رنگین" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["کس بات کا","کس چیز کا","کس طرح","کس قدر","کس قسم یا طرح کا","کس ڈھنگ سے","کس کا","کس کام کا","کہاں کا","کیا ذکر یا مذکور"]

اسم

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )

اقسام اسم

  • جنسِ مخالف : کَیسی[کَے (ی لین) + سی]
  • واحد غیر ندائی : کَیسے[کَے (ی لین) + سے]
  • جمع : کَیسے[کَے (ی لین) + سے]
  • جمع غیر ندائی : کَیسوں[کَے (ی لین) + سوں (واؤ مجہول)]

کیسا کے معنی

١ - کس قسم کا، کس طرح کا۔

"اینٹ گارا کیسا لگوایا ہے۔" (١٩٨٨ء، تبسم زیر لب، ٢٢)

٢ - کس چیز کا، کس بات کا۔

 ذوق دیدار میں بیخود ہوں نہ کہ مجھ سے حجاب اوٹھ گیا بیچ سے جب میں ہی تو پردا کیسا (١٨٦١ء، دیوان ناظم، ١٨)

٣ - کس قدر، کتنا۔

"سولہ کی لڑکی دیکھو پہاڑ جیسی لگے گی اور سولہ کا لڑکا! کیسا معصوم، بھولا بھالا۔" (١٩٨٩ء، خوشبو کے جزیرے، ٦٨)

٤ - کس کام کا، کس مطلب کا، بے سود، بے فائدہ ہے۔

 خونِ دل پیتے دورِ مے و ساغر کیسا دل ہی بے چین جب اپنا ہو تو دلبر کیسا (١٨٧٤ء، نشیہ خسروانی، نواب، ٢١)

٥ - کس طرح کا، کس ڈھنگ سے، کس انداز سے۔

 ایّہا النّاس! گزرتا ہے زمانا کیسا اہلِ اسلام کو آزار ہے کیسا کیسا (١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٣٨)

٦ - کیا ذکر، کیا مذکور۔

 قفس کیسا مجھے رکھا گیا تنکوں کے زنداں میں بہت مشہور تھا میں نغمہ سنجانِ گلستان میں (١٩١٩ء، دُر شہوار بیخود، ٦٠)

٧ - کہاں کا، کاہے کا۔

 آئے بھی وہ جو شب وصل تو سونا کیسا خود مرا طالعِ بیدار بنے بیٹھے ہیں (١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ١١٣)

٨ - (استفسار کے لیے مستعمل) کیوں، کس لیے، کس وجہ سے۔

 تم تو کہتے ہو نہیں بولتے ہم جھوٹ کبھی لے کے دل پھر یہ مکرنا مرے دلبر کیسا (١٩٠٥ء، دیوانِ انجم، ٦٢)

٩ - کجا، درکنار۔

"ان سب روایات سے ہمارے ناظرین واقف ہونگے لیکن ہم ان واقعات سے استشہاد کرنا کیسا، ان کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتے۔" (١٩١٥ء، فلسفہ اجتماع، ١١١)

١٠ - مانند، مثل، جیسا۔

"اخبار کی ایڈیٹری یا وکالت مثل بھیک مانگنے یا نقالی کے ایسا پیشہ ہے۔" (١٩٠٣ء، عصر جدید، اکتوبر، ٣٦٥)

١١ - اظہار تعجب کے لیے، عجیب و غریب، حیرت انگیز۔

"اس نے اپنے اتنے اچھے باپ کا کیسا بھیانک نقشہ تمہارے سامنے کھینچا تھا۔" (١٩٨٩ء، خوشبو کے جزیرے، ٤٢)

١٢ - کس طرح کا، عموماً مزاج پرسی کے لیے (جیسے: اب آپ کا مزاج کیسا ہے

 غیر کے غم میں وہ خاموش تھے میں نے پوچھا جی ہے کیسا تو کہا تیرا کلیجا کیسا (١٨٨٤ء، آفتابِ داغ، ١٠)

١٣ - قرار واقعی سزا دینے کےغ موقع پر مستعمل، کیسی سزا دیتی ہوں۔

 پھر بولی اوس کو بلاتی ہوں کیسا دیکھیوں ٹھیک بناتی ہوں (١٨٠٥ء، نظم رنگین، ٦١)

کیسا کے مترادف

کتنا, کیف

ازحد, ازحڈ, بہت, بیکار, نہایت, کتنا, کنکم, کیا, کیف, کیوں, کیٹشک

کیسا کے جملے اور مرکبات

کیسا کیسا, کیساہی

کیسا english meaning

(F. کیسی kai|si)(F. ???? kai|si) Howin what mannerwhat mannerwhat sort ofwhat type of

شاعری

  • کس کا کعبہ‘ کیسا قبلہ‘ کون حرم ہے‘ کیا احرام
    کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
  • کیا ہے گر بدنامی و حالت تباہی بھی نہ ہو
    عشق کیسا جس میں اتنی روسیاہی بھی نہ ہو
  • کیسا چمن اسیری میں کس کو ادھر خیال
    پرواز خواب ہوگئی ہے بال و پر خیال
  • اُجڑ چکا ہوں‘ تو کیا ہے‘ اس کا ملال کیسا
    محبّتوں میں عروج کیسا‘ زوال کیسا
  • جس کی پوریں دل کی اک اک دھڑکن گنتی ہیں
    جس کو ہم نے خدا گردانا‘ جانے کیسا ہو
  • دل منافق تھا شبِ ہجر میں سویا کیسا
    اور جب تجھ سے ملا ٹوٹ کے رویا کیسا
  • ذکر اس کا ہی سہی‘ بزم میں بیٹھے ہو فراز
    درد کیسا ہی اٹھے‘ ہاتھ نہ دل پر رکھنا
  • فاصلے پہ رہ کے ملنا بھی مجھے اچھا لگا
    تُو بتا آخر تجھے یہ سانحہ کیسا لگا
  • لگے گی عمر جس کو بُھولنے میں
    بُھلا دینا اُسے کیسا رہے گا؟
  • میں تو اپنی دھن میں چکرایا سا پھرتا ہوں
    تم کو اپنی موج میں رہنا کیسا لگتا ہے!

محاورات

  • اب گھونگھٹ کیسا
  • اپنی گانٹھ نہ ہو پیسا تو پرایا آسرا کیسا
  • اپنی گانٹھ نہ ہو پیسہ تو پرایا آسرا کیسا
  • اپنی گانٹھ کا پیسا پرایا آسرا کیسا
  • اپنے ڈھگ پیسہ تو پرایا آسرا کیسا
  • ایسے پر تو ایسا (- ایسی / ایسے) کاجل دیے پر کیسا (- کیسی / کیسے)
  • جس کے پاس نہیں پیسا وہ بھلا مانس کیسا
  • چار مہینے پال کا۔چار مہینے ڈال کا۔ چار مہینے جیسا کیسا (جیسے ویسے)
  • رنڈی مانگے روپیہ لے لے میری میا۔ پھکر مانگے پیسہ چل بے سالے کیسا
  • ساس (١) بن کیسی سسرال، لابھ بن کیسا مال

Related Words of "کیسا":