گاہ کے معنی
گاہ کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ گاہ }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور متعلق فعل مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور متعلق فعل اور گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں مسعتمل ملتا ہے۔, m["بعض اوقات","تخت سلطنت","تخت شاہی","سنگھا سن","لشکر گاہ","مرکبات میں جیسے شکار گاہ صبحگاہ۔ ناگاہ","ٹھور ٹھکانا","کسی وقت","کوئی خونخوار آبی جانور"]
اسم
اسم ظرف زماں ( مؤنث - واحد ), متعلق فعل
گاہ کے معنی
[" تھی یہ سر گوشی سحر گاہاں کہ کشتی میں چلیں گے صرف ہم دونوں، کوئی اس راز کا محرم نہ ہو گا (١٩٦٢ء، گل نغمہ، عبدالعزیز خالد، ١١٤)"]
[" گاہ کسی سائے کی طرح مصروف خرام اور کبھی وحشت میں جھومتے دیکھا ہے (١٩٧٧ء، سرکشیدہ، ٨١)"]
گاہ کے مترادف
وقت, مکان
استھان, بار, باری, بیتابی, جا, جائے, جگہ, زمانہ, شارک, گدّی, گھڑیال, مصیبت, مقام, مگرمچھ, مکان, وقت, کبھی, کرت
گاہ english meaning
Place; time; turn; A rapacious aquatic animal; a crocodile; an alligator; a sharkcentreoccasionplaceplace (used in comp)place oftime
شاعری
- سبزان تازہ رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی
اب دیکھئے تو واں نہیں سایہ درخت کا - دل جو نہ تھا تو رات زخودرفتگی میں میر
کہ انتظار و گاہ مجھے اضطراب تھا - باغ جیسے راغ وحشت گاہ ہے
یاں سے شاید گل کا موسم ہوگیا - کوہکن کی ہے قدم گاہ آخر اے اہل وفاق
طوف کرنے بے ستوں کا بھی کبھی جایا کرو - کل وعدہ گاہ میں سے جوں توں کی ہم کو لائے
ہونٹھوں پہ جان آئی پر آہ وے نہ آئے - شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خونکی راہ ہے
تیرا کوچہ ہم سے تو کہہ کس کی بسمل گاہ ہے - گہ گل ہے گاہ رنگ گہے باغ کی ہے بو
آتا نہیں نظر وہ طرح دار ایک طرح - بُرا ہے امتحاں لیکن نہ سمجھے تو تو کیا کرے
شہادت گاہ میں لے چل سب اپنے بوالہوس بہتر - دنیا ہے میر حادثہ گاہ مقرری
یاں سے تو اپنا پانوں شتابی نکال چل - افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں
لگتے ہی اُس کے ہاتھ کی تلوار مرگئے
محاورات
- (گاہ) گاہے باشد کہ کود کے ناداں۔ ز غلط بر ہدف زند تیرے
- آپس میں نگاہیں لڑنا
- آدمی کی نگاہ پہچاننا
- آسمان کی طرف دیکھنا یا نگاہ اٹھانا
- آگاہ بھاری ہونا
- آگاہ کر دینا یا کرنا
- اپنی اپنی نظر / نگاہ
- اجل زیر نگاہ پھرنا
- ادھار دیا گاہک گیا۔ صدقہ دیا رد بلا
- ادھار دیا گاہک کھویا