باش کے معنی
باش کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ باش }
تفصیلات
iفارسی زبان میں مصدر |بودن| سے صیغۂ امر مشتق ہے اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے۔ اردو میں بطور حرف مستعمل ہے۔ ١٨٧٩ء میں "بوستان خیال" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بودن ۔ ہونا ۔ رہنا","بودن کا","خاک باش","خوش باش","خوش باشی","ذی نفس","شب باش","صبر کر","مرکبات کے اخیر میں جیسے شاباش، خوش باش","یار باشی"]
بودن باش
اسم
حرف تنبیہ ( مذکر )
باش کے معنی
نیند ان کی اڑی جاتی ہے باش اے دل نالاں کیا اب بھی نہ ہو گا یہ ترا ورد سحر بند (١٩١٧ء، کلیات حسرت، ١٠١)
حد احساس سے اب ہے متجاوز غم دل باش دشواری منزل کہ یہ آسانی ہے (١٩٣٠ء، نقوش مانی، ١٥٠)
"ہم سمیوں کی تعریف مختصراً اس طریقے سے کر سکتے ہیں کہ یہ آزاد باش نامیے ہیں۔" (١٩٦٧ء، بنیادی خرد حیاتیات، ١٠٣)
باش english meaning
beinglivingstayingthe mouth of a mistress
شاعری
- آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادا نہیں کیا - سارے رند او باش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا - جسے دیکھو بشش بشاش ہے
غرض یہ کہ ہر ایک خوش باش ہے - بیکنٹھ ہو نصیب کہ تھا اس کو سب سے آنس
لالہ سروپ سنگھ تھا بھی زور یار باش - دیکھو شکوہ ِ لشکرِ حُسن و سپاہِ خط
کیا زلفِ یار اک علم دُور باش ہے - ہمیشہ در جشن ہے دیکھ دل دار
شغل بہر شوق ستی توں ہماں باش
محاورات
- (گاہ) گاہے باشد کہ کود کے ناداں۔ ز غلط بر ہدف زند تیرے
- آرا باش تیشہ مباش
- اے زفرصت بیخبر درہرچہ باستی زود باش
- باادب باش تا بزرگ شوی
- بعد از سر من کن فیکون شد شدہ باشد
- بقدر مال باشد سرگرانی
- بیکار مباش کچھ کیا کر کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر
- بیکنٹھ باشی ہوجانا یا ہونا
- تاشودمردفربہے لاغر۔ لاغرے مردہ باشداز سختی
- تامرد سخن نگفتہ باشد۔ عیب و ہنرش نہفتہ باشد