برف کے معنی
برف کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ بَرْف }
تفصیلات
iاصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے فارسی سے اردو میں ماخوذ ہے اور اصلی حالت میں ہی بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٦٥٧ء میں |گلشن عشق| میں مستعمل ملتا ہے۔, m["آب منجمد","بہت ٹھنڈا","آب بستہ","برف میں جما ہوا دودھیا شربت","بہت سرد","بہت سفید","جما ہوا پانی","جما ہوا دودھ یا شربت","نہایت سرد","وہ کُہر جو روئی کی شکل میں برستی ہے"]
اسم
اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد ), صفت ذاتی ( واحد )
برف کے معنی
["|گو ابھی برف پڑنا شروع نہیں ہوئی مگر اونچی پہاڑیاں برف کی سفید ٹوپیاں پہننے لگیں۔\" (١٩٠٧ء، شوقین ملکہ، ٥)"," سوندھے سوندھے آبخوروں میں مزہ آ جائے گا تو جمادے برف اے ساقی مئے انگور کی (١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٧١)"]
["|حکیم صاحب ذرا دیکھیے تو مریض کے ہاتھ پاؤں برف ہو گئے ہیں۔\" (١٩٢٤ء، نوراللغات، ٦١٤:١)"]
برف کے مترادف
سرد
آئس, آب, اُجلا, اولا, این, پالا, پالایخ, تِلج, خفتہ, سفید, گڑا, ہِم, یخ
برف کے جملے اور مرکبات
برفاب, برفانی, برف باری, برف پروردہ, برف تودہ, برف خانہ, برف زدی, برف کا نقطہ, برف کوری, برف کی سل, برف پوش
برف english meaning
coolediceice coldsnowsnow whitesnow-cappedto bear maliceto light the funeral pile
شاعری
- کوئی چاند چہرا کُشا ہُوا
کوئی چاند چہرا کُشا ہُوا
وہ جو دُھند تھی وہ بکھر گئی
وہ جو حَبس تھا وہ ہَوا ہُوا
کوئی نیا چاند چہرا کُشا ہُوا
تو سمٹ گئی
وہ جو تیرگی تھی چہار سُو
وہ جو برف ٹھہری تھی رُوبرُو
وہ جو بے دلی تھی صدف صدف
وہ جو خاک اُڑتی تھی ہر طرف
مگر اِک نگاہ سے جَل اُٹھے
جو چراغِ جاں تھے بُجھے ہُوئے
مگر اِک سخن سے مہک اُٹھے
مِرے گُلستاں ‘ مِرے آئنے
کسی خُوش نظر کے حصار میں
کسی خُوش قدم کے جوار میں
کوئی چاند چہرا کُشا ہُوا
مِرا سارا باغ ھَرا ہُوا - مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر!
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھوگئے
مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے - سلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ
یہ سوزِ دردِ نہانی، کہیں تو کس سے کہیں! - اُس کے لہجے میں برف تھی لیکن
چھوکے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے - کچھ ایسی برف تھی اس کی نظر میں!
گزرنے کے لیے رستہ نہیں تھا - میرے بچپن کے مندر کی وہ مورتی دھوپ کے آسماں پہ کھڑی تھی مگر
ایک دن جب مرا قد مکمل ہوا اس کا سارا بدن برف میں دھنس گیا - خوش رنگ پرندوں کے لوٹ آنے کے دن آئے
بچھڑے ہوئے ملتے ہیں جب برف پگھلتی ہے - برف پر تیرتے روشنی کے بدن چلتی گھڑیوں کی دو سوئیوں کی طرح
دائرے میں صداگھومنے کے لیے آہنی محوروں میں جڑے جائیں گے - سورج کے قاب سیتی جیوں پگلتا برف آپس میں
اورخ ریکھت نظر انکھیاں کے انکھیاں میں گل ہے آ - لگادے کوئی برف کی آج کل
کہ گرمی بہت پڑتی ہے اج کل
محاورات
- برف پڑنا
- برف گلنا
- چراغے کہ بیوہ زنے برفروخت۔ بسے دیدہ باشی کہ شہرے بسوخت
- ٹھنڈا برف سے بھی‘ میٹھا ہے جیسے اولا۔ کچھ پاس ہے تو دے جا‘ نہیں پی جا راہ مولا
- ٹھنڈا ہے برف سے بھی میٹھا ہے جیسے اولا کچھ پاس ہے تو دیجا نہیں تو پیجاراہ مولا