تحمل کے معنی
تحمل کے معنی ، تشریح، مترادف اور تفصیل
{ تَحَم + مُل }
تفصیلات
iعربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزیدفیہ کے باب تفعُّل سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔, m["بوجھ اُٹھانا","رحم دلی","صبر سے برداشت کرنا","غم خواری","وقفہ (کرنا ۔ ہونا کے ساتھ)"]
حمل تَحَمُّل
اسم
اسم مجرد ( مذکر - واحد )
تحمل کے معنی
نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اس کی ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا (١٩٣١ء، بہارستان، ٦)
امانت کے تحمل میں وہ ناکامی معاذاللہ خلش رکھتا نہ کیوں کر تاقیامت آسماں ہم سے (١٩٤٠ء، بے خود موہانی، کلیات، ٩١١)
تحمل کے مترادف
روا داری, ملائمت, بردباری, صبر
امن, برداشت, بردباری, بُردباری, توقف, حلم, حلیمی, حَمَلَ, سہار, شکیبائی, صبر, مہلت, نرمی, وقفہ
تحمل english meaning
enduring patiently; patienceendurancelong-sufferingresignationforbearance; meeknesshumility; trucepeacefor bearanceforbearancepatiencepatience ; enduranceto eatto eat uptolerationtoleration ; forbearance
شاعری
- نہیں تاب لاتا دِل زار اب
بہت ہم نے صبر و تحمل کیا - ہمنشیں آہ تکلیف شکیبائی کر!
عشق میں صبر و تحمل ہو یہ امکان نہیں - دیکھیں گے اپنے دل کے تحمل کی کیفیت
ہم ان کو اور چھیڑ کے خودسر بنائیں گے - کیوں مچایا ہے دل بیتاب نے غل کیا ہوا
صبر کیا آفت پڑی تجھ پر تحمل کیا ہوا - آدیکھیاں آکونج مج میں اونی کی آگ لانیاہیں
کہ پانی میں تحمل کا کہ جو توست یوجاتی ہوں - شکیب و تحمل خودی پر غروری
یہ کب ہووے عاشق سے کار پری رخ - سن اس بات کوں شہ تحمل سنگات
رکھیا شاہزادے سے اس دیس ہات - ہوش و حواس صبر و تحمل خوشا نصیب
ان کی زباں پہ جلوہ دکھانے کی بات ہے - اپنے ہی خون سے رنگ لے گا ترے ہاتھونکو
کیا کرے عاشق بے صبر و تحمل مہدی - جوش قلق نے اس کو بھی دیوانہ کر دیا
پہلے تو ورنہ طبع تحمل میں دم نہ تھا
محاورات
- تحمل کا یارا نہ ہونا
- تحمل کرنا